مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5117
وعن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن خرج معه رسول الله صلى الله عليه وسلم يوصيه ومعاذ راكب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي تحت راحلته فلما فرغ قال يا معاذ إنك عسى أن لا تلقاني بعد عامي هذا ولعلك أن تمر بمسجدي هذا وقبري فبكى معاذ جشعا لفراق رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم التفت فأقبل بوجهه نحو المدينة فقال إن أولى الناس بي المتقون من كانوا وحيث كانوا روى الأحاديث الأربعة أحمد
پرہیز گاری کی فضیلت
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول کریم ﷺ نے انہیں قاضی یا عامل بنا کر یمن روانہ فرمایا تو آپ ﷺ الوداوع کہنے کے لئے کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اور اس دوران آپ ﷺ ان کو تلقین و نصیحت کرتے رہے، نیز اس وقت معاذ ؓ تو اپنی سواری پر سوار تھے اور رسول اللہ ﷺ ان کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ ﷺ نصائح و ہدایت سے فارغ ہوئے تو فرمایا۔ معاذ میری عمر کے اس سال کے بعد شاید تم مجھ سے ملاقات نہیں کرسکو گے اور ممکن ہے کہ تم جب یمن سے واپس لوٹو گے تو مجھ سے ملاقات کرنے کے بجائے میری اس مسجد اور میری قبر سے گزرو۔ معاذ ؓ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کی جدائی کے غم میں رونے لگے اور رسول کریم ﷺ نے معاذ ؓ کی طرف سے منہ پھیر کر مدینہ کی جانب اپنا رخ کرلیا، پھر فرمایا میرے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو پرہیز گار ہیں خواہ وہ کوئی ہوں اور کہیں ہوں (یعی خواہ وہ کسی رنگ و نسل، کسی ملک و قوم اور کسی طبقہ و مرتبہ کے ہوں) ان چاروں روایتوں کو امام احمد (رح) نے نقل کیا ہے۔

تشریح
لفظ ماقبل گویا لفظ التفت کی وضاحت ہے، نیز معاذ ؓ کی طرف سے حضور ﷺ کے منہ پھیرنے کی وجہ شاید یہ تھی کہ آپ ﷺ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کو روتا ہوا دیکھیں کیونکہ اس صورت میں آپ ﷺ کا دل بھی بھر آتا اور بعید نہیں تھا کہ آپ ﷺ بھی رونے لگتے جس سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر غم کا احساس شدید تر ہوجاتا، نیز اس طرح آپ ﷺ نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ میری اس بات سے تمہارا غمگین ہونا اور رونا بالکل بجا، لیکن میرا اس دنیا کو چھوڑنا اور آخرت کا سفر اختیار کرنا ایک یقینی بات ہے۔ چناچہ ایک طرف تو آپ ﷺ نے اپنے مذکورہ فعل کے ذریعہ حضرت معاذ ؓ کو ڈھارس دی اور ان کو حادثہ فاجعہ کو قبول کرنے کے لئے تیار کیا اور دوسری طرف اپنے اشارہ کے ذریعہ ان کو آگاہ فرمایا کہ تم اس وقت مجھے اور مدینہ سے جدا ہو رہے ہو لیکن بعد میں تم مدینہ کو دیکھ کر لوگے البتہ مجھے دیکھنا تمہیں نصیب نہیں ہوگا۔، پھر آپ ﷺ نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ انبیاء اور اتقیا کے درمیان حقیقی رفاقت و قرب کا کیف بس اسی جہاں میں حاصل ہوگا جو دارالبقاء ہے وہاں جو شخص جس کا رفیق و ساتھی بن جائے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے لہٰذا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو میری ہمیشہ کی رفاقت کا شرف مل جائے اور آخرت کی دائمی زندگی میں اس کو وہ مرتبہ نصیب ہو کہ جس کی وجہ سے اس کو میری شفاعت و قرب حاصل ہو تو اس کو چاہئے کہ تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرے، کیونکہ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر کوئی شخص میری قربت حاصل کرسکتا ہے۔ خواہ وہ کوئی ہوں اور کہیں ہوں جیسا کہ اوپر ترجمہ میں بھی وضاحت کی گئی ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص میرا پسندیدہ میرا نزدیک اور میرا عزیز بننا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ متقی بنے، قطع نظر اس بات کے کہ وہ کس قبیلہ وقوم کا ہے، کس رنگ و نسل کا ہے اور کس ملک میں سکونت پزیر ہے، ایک شخص مکہ اور مدینہ میں میرا ہم شہر اور میرے قبیلہ و خاندان کا ہونے کے باوجود میرے قریب نہیں ہوسکتا جب کہ وہ پرہیز گاری اختیار کئے ہوئے نہ ہو اور ایک شخص مجھ سے بہت دور سکونت پذیر ہونے اور مجھ سے کوئی نسلی و قرابتی تعلق نہ رکھنے کے باوجود کہ وہ بصرہ میں ہو یا کوفہ میں، یمن میں ہو یا کسی اور دور دراز کے ملک میں، میرے بہت قریب و نزدیک ہوسکتا ہے جب کہ وہ پرہیز گاری پر عامل ہو اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک تو حضرت اویس قرنی (رح) تھے کہ ان کو کبھی بھی حضور کی زیارت تک نصیب نہیں ہوئی اور یمن میں سکونت پذیر رہے مگر چونکہ وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے درجہ کمال پر پہنچے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے کتنا عظیم مرتبہ پایا اور حضور ﷺ سے دور رہنے کے باوجود بارگاہ رسالت میں کس قدر قربت و نزدیکی کے حامل ہوئے، اس کے برخلاف ایک وہ لوگ تھے جن کا شمار مکہ اور مدینہ کے معزز ترین اور اشرف لوگوں میں ہوتا تھا حضور ﷺ ہی کے شہر میں رہتے تھے اور حضور ﷺ ہی کے قبیلہ و خاندان کے تھے مگر چونکہ ترک تقویٰ اختیار کئے ہوئے تھے اس لئے بارگاہ رسالت میں مقام قرب سے محروم رہے بلکہ حضور ﷺ کو تکالیف ایذاء پہنچانے کے سبب نہایت شقی اور بدبخت قرار پائے۔ پس حضور ﷺ نے مذکورہ ارشاد کے ذریعہ گویا حضرت معاذ ؓ کو تسلی دی کہ ہماری ظاہری جدائی کا غم نہ کھاؤ بلکہ تقویٰ کو اختیار کئے رہو اگر تم متقی رہے تو گو ظاہری اعتبار سے تم ہم سے جدا رہو گے مگر معنوی طور پر ہمارے ساتھ ہی رہو گے۔ طیبی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا مذکورہ ارشاد حضرت معاذ ؓ کو اپنی رحلت کی پیشگی اطلاع دینے کے بعد گویا ان کے حق میں تسلی کے طور پر تھا اور ان کو اس طرف متوجہ کرنا مقصود تھا کہ جب تم اپنے فرائض منصبی کو پورا کر کے یمن سے مدینہ واپس آؤ اور مجھے اس دنیا میں موجود نہ پاؤ تو اس وقت یہاں ان لوگوں کی اقتداء و اتباع کرنا جو اپنے تقویٰ و طہارت اور کمال دینداری کے سبب مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک اور قریب ہیں، پھر طیبی کہتے ہیں کہ اس ارشاد میں جن لوگوں کی اقتداء اور و اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ان سے گویا بطور کنایہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی ذات گرامی مراد تھی جن کو آنحضرت ﷺ کے بعد خلیفہ اول قرار پانا تھا، اس بات کی تائید حضرت جبیر ابن مطعم ؓ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کا تعلق اسی طرح کے ایک واقعہ سے ہے جس میں حضور ﷺ نے اپنے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت کی طرف اشارہ فرمایا تھا، چناچہ اس روایت میں منقول ہے کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور آپ ﷺ سے کسی مسئلہ میں گفتگو کی۔ حضور ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تم کسی اور وقت آنا تو میں تفصیل کے ساتھ تمہیں سمجھا دوں گا اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر میں کسی ایسی وقت آئی کہ (خدا نخواستہ) آپ ﷺ اس دنیا میں موجود نہ ہوئے تو میں کیا کروں گی؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اگر تم ایسے وقت آئیں کہ میں اس دنیا میں نہیں رہا تو پھر تم ابوبکر ؓ کے پاس چلی جانا۔ گویا حضور ﷺ نے اس طرف صریحا اشارہ فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ؓ خلیفہ ہوں گے اور اس وقت مسلمانوں کے مقتداء وہی ہوں گے۔ بہرحال اس حدیث کا مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ اپنے تمام دینی و دنیاوی معاملات اور تمام ملکی و شرعی امر میں ہمہ وقت احتیاط وتقویٰ کو ملحوظ رکھنا چاہئے، نیز اس میں تمام امت کے لئے یہ تسلی بھی پوشیدہ ہے کہ جن لوگوں کو حضور ﷺ کا زمانہ اور آپ ﷺ کی خدمت و صحبت کا شرف حاصل نہیں ہوا ہے خواہ وہ کتنے ہی زمانہ کے بعد پیدا ہوں گے اگر وہ تقویٰ اختیار کریں گے تو انہیں بارگاہ رسالت میں تقرب حاصل ہوگا، اللہم ارزقنا ہذہ النعمۃ۔
Top