مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5116
وعن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه قال جاء رحل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال عظني وأوجز . فقال إذا قمت في صلاتك فصل صلاة مودع ولا تكلم بكلام تعذر منه غدا وأجمع الإياس مما في أيدي الناس
چند انمول نصائح
حضرت ابوایوب انصاری ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر کیا کہ (یا رسول اللہ! ﷺ مجھ کو کوئی ایسی نصیحت فرمائیے مختصر اور جامع ہو! حضور ﷺ نے فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اس شخص کی طرح نماز پڑھو جو اللہ کے سوا ہر چیز یعنی مخلوق اور اپنے نفس کو رخصت کرنے اور چھوڑنے والا ہے (حاصل یہ کہ جب نماز پڑھو تو دنیا بھر سے اپنی توجہ اور اپنا خیال پھیر کر کامل اخلاص اور پوری توجہ کے ساتھ رب العالمین کی طرف متوجہ رہو) نیز اپنی زبان سے ایسی کوئی بات نہ نکالو جس کے سبب تمہیں کل (قیامت کے دن، اللہ کے حضور) عذر خواہی کرنی پڑے (یا یہ کہ عذر خواہی کا مفہوم، عموم پر محمول ہے یعنی کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکال جس کے سبب تمہیں اپنے دوستوں، رفقاء و متعلقین اور تمام مسلمانوں کے سامنے پشیمان ہونا پڑے اور معذرت کرنے کی ضرورت پیش آئے) اور اس چیز سے ناامید ہوجانے کا پختہ ارادہ کرلو جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، (یعنی اللہ نے تمہاری قسمت میں جتنا لکھ دیا ہے اور تمہیں جو کچھ دے دیا ہے اسی پر قناعت و کفایت کرو اور لوگوں کے مال و متاع سے اپنی امید وابستہ نہ کرو۔

تشریح
رخصت کرنے کے ایک معنی تو وہ ہیں جو اوپر ترجمہ میں بیان کئے گئے ہیں اور ممکن ہے کہ رخصت کرنے سے مراد حیات کو رخصت کرنا ہو، یعنی تم اس طرح نماز پڑھو کہ گویا وہ تمہاری آخری نماز ہے اور وہ وقت تمہاری زندگی کا آخری وقت ہے! چناچہ مشائخ کی وصیتوں اور نصائح میں یہ زریں ہدایت منقول ہے کہ طالب کو چاہئے کہ وہ اپنی ہر نماز میں یہ تصور کرے کہ بس یہ آخری نماز ہے! جب وہ اس تصور کے ساتھ نماز پڑھے گا تو یقینا اس نماز کو کامل اخلاص، پورے ذوق و شوق، حضور قلب اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کرے گا۔ حدیث کے آخری الفاظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ دوسروں کے مال و متاع اور دولت پر نظر رکھنا اور ان سے امیدیں وابستہ کرنا قلبی فقر و افلاس کی علامت ہے، چناچہ قلب کا غنی ہونا اس پر منحصر ہے کہ لوگوں کے پاس جو کچھ مال و متاع اور دولت ہے اس سے اپنی امید منقطع کرلی جائے۔
Top