مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5113
وعن مالك رضي الله عنه قال بلغني أنه قيل للقمان الحكيم ما بلغ بك ما ترى ؟ يعني الفضل قال صدق الحديث وأداء الأمانة وترك ما لا يعنيني . رواه في الموطأ
راست گفتاری ونیک کرداری کی اہمیت
حضرت امام مالک (رح) کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب لقمان حکیم سے یہ پوچھا گیا ہے کہ جس مرتبہ (یعنی فضیلت کے جس مقام) پر ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں اس تک آپ کو کسی چیز نے پہنچایا ہے؟ لقمان حکیم نے فرمایا۔ سچ بولنے نے (کہ میں نے سچائی کا دامن، کبھی نہیں چھوڑا، خواہ میں نے خود کوئی بات کہی ہو یا کسی کی کوئی بات نقل کی ہو ہمیشہ سچ بولنے پر عامل رہا) ادائیگی امانت نے (یعنی خواہ کوئی مالی معاملہ رہا ہو یا فعلی، میں نے ہمیشہ دیانت داری کو ملحوظ رکھا ہے) اور جو چیزیں میرے لئے بےفائدہ اور غیر ضروری ہیں ان کو ترک کردینے سے۔ (موطا)

تشریح
اس روایت سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اصل حکمت و دانائی، راست گفتاری و نیک کرداری ہے۔ چناچہ انسانی زندگی کے یہی وہ دو اعلی جوہر ہیں جن کو اختیار کر کے لقمان حکیم اپنے عظیم مرتبہ تک پہنچ گئے۔ لقمان حکیم کون تھے؟ لقمان حکیم، جن کی حکمت و دانائی آج بھی ضرب المثل ہے اور جن کا نام عقل و دانش کے اس پیکر کے طور پر لیا جاتا ہے جس سے دنیا کے بڑے بڑے حکماء بڑے بڑے مفتیین اور بڑے بڑے فلاسفر فیضان حاصل کرتے ہیں، دراصل مشہور پیغمبر حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بھانجے تھے اور بعض حضرات نے ان کو حضرت ایوب (علیہ السلام) کا خالہ زاد بھائی کہا ہے، علماء اسلام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ خود پیغمبر تھے یا نہیں؟ تاہم یہ بات متفقہ طور پر مسلم ہے کہ وہ ایک عظیم حکیم و فلاسفر تھے اور ولایت کے درجہ پر فائز تھے، نیز منقول ہے کہ انہوں نے تقریبا ایک ہزار پیغمبروں کی خدمت میں حاضر باشی اختیار کی تھی اور ان سب کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا، غالباً ان کی اس بےمثال حکمت و دانائی کا ایک بڑا راز یہ بھی ہے کہ ان کو اتنے زیادہ پیغمبروں سے فیضان حاصل کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی یہ روایت منقول ہے کہ لقمان، نہ تو پیغمبر تھے اور نہ کوئی بادشاہ بلکہ وہ ایک سیاہ فام غلام تھے اور بکریاں چرایا کرتے تھے، حق تعالیٰ نے ان کو مقبول بارگاہ رب العزت بنایا، انہیں حکمت و دانائی، جوان مردی اور عقل دانش سے نوازا اور اپنی کتاب قرآن کریم میں ان کا ذکر فرمایا۔
Top