مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5102
وعن عائشة رضي الله عنها عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الدنيا دار من لا دار له ومال من لا مال له ولها يجمع من لا عقل له . رواه أحمد والبيهقي في شعب الإيمان
مال ودولت جمع کرنا بے عقلی ہے
حضرت عائشہ ؓ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کے لئے (آخرت میں) مال نہیں ہے، نیز مال و دولت وہی جمع کرتا ہے جس کو عقل نہیں ہوتی۔ (احمد، بیہقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا چونکہ فانی ہے اس لئے اس میں ٹھہرنا اور شادمانی کی زندگی اختیار کرنا ممکن نہیں ہے، لہٰذا جس شخص نے دنیا کو اپنا گھر سمجھا اور اس کے آرام و آسائش کو اصل شادمانی حیات جانا وہ ایسا شخص ہے کہ گویا اس کے لئے کوئی اور گھر نہیں ہے! اسی طرح اور مال اس شخص کا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو دنیا کا مال و اسباب حاصل ہو اور وہ اس کے مقصود اصلی یعنی بھلائیوں کے کام اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے امور میں خرچ نہ کرے، بلکہ دنیاوی لذات کے حصول اور نفسانی خواہشات کی تکمیل میں خرچ کرے۔ اس کا وہ مال گویا مالیت کے حکم سے خارج ہے کیونکہ اس نے اپنے مال کے اصل مقصد سے انحراف کر کے اور اس کو غیر مقصد مصارف میں خرچ کر کے ضائع کردیا۔ لہٰذا وہ اس شخص کی طرح ہوا جس کے پاس مال نہ ہو۔ مشکوۃ کے بعض حواشی میں یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ دنیا کے گھر اور دنیا کے مال چونکہ بہت جلد فنا کے گھاٹ اتر جانے والی چیز ہے اور ان کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے اس لئے ان کو گھر اور مال کہنا ہی نہیں چاہئے، یہ مراد بھی حقیقت کے اعتبار سے پہلی وضاحت ہی سے ماخوذ ہے۔ حدیث کی ایک مراد یہ بھی بیان کی جاسکتی ہے کہ جس شخص نے دنیا کے گھر کو اپنا اصلی گھر قرار دیا اور اس پر مطمئن ہوگیا، یا جس نے اس گمان کے ساتھ دنیوی مال و دولت کو جمع کیا کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ سب باقی رہنے والا اور ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (ان الذین لا یرجون لقائنا ورضوا بالحیوۃ الدنیا واطمأنوا بھا)۔ اور ایک جگہ یوں فرمایا ہے۔ آیت (یحسب ان مالہ اخلدہ)۔ تو وہ شخص آخرت میں گھر پانے اور وہاں کے غنا (یعنی نعمتوں) سے نوازے جانے کا مستحق نہیں ہوگا۔ مال و دولت وہی شخص جمع کرتا ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص محض اس لئے مال و دولت جمع کرتا ہے کہ اس کو دنیا عزیز ہوتی ہے یا وہ اس مال و دولت کو ہمیشہ باقی رکھنے کی نیت رکھتا ہے اور یا محض دنیاوی لذات اور دنیاوی فائدوں کا حصول اس کے پیش نظر ہوتا ہے تو اس شخص کو عقل و دانش کا حامل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حدیث کا اجمالی مفہوم یہ ہے کہ یہ دنیا اس قابل نہیں ہے کہ اس کو گھر سمجھا جائے ہاں جو شخص آخرت میں ملنے والے اپنے گھر سے محروم رہنا چاہتا ہے وہی اس دنیا کو اس قابل سمجھ سکتا ہے اسی طرح اس دنیا کی دولت کو وہی شخص دولت سمجھ سکتا ہے جو آخرت کی دولت سے محروم رہنا چاہتا ہے اور حاصل یہ کہ اس ارشاد گرامی کا مقصد گویا یہ احساس دلانا ہے کہ جن لوگوں کے لئے آخرت میں دار القرار (قرار گاہ) اور وہاں کی بےبہا دولت مقدر ہے ان کی نظر میں یہ دنیا اتنی حقیر اور اس قدر بےوقعت ہے کہ اس کے گھر اور اس کے مال و دولت کو گھر اور دولت کہا ہی نہیں جاسکتا۔
Top