مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5101
وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال اتقوا الحرام في البنيان فإنه أساس الخراب . رواهما البيهقي في شعب الإيمان
ضرورت سے زیادہ عمارت بنانے کے بارے میں وعید
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (لوگو) تم عمارتوں میں حرام مال لگانے سے پرہیز کرو، کیونکہ عمارتوں میں حرام مال لگانا (دین یا) اس عمارت کی خرابی کی بنیاد اور جڑ ہے ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا۔

تشریح
مذکورہ ارشاد گرامی سے یہ مفہوم اخذ کیا جاتا ہے کہ اگر عمارتوں میں حلال مال لگایا جائے تو اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی اور بعض حضرات نے عمارتوں میں حرام مال لگانے سے پرہیز کرو کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان حرام چیزوں کو اختیار کرنے سے اجتناب کرو جو عمارتیں بنانے کے سلسلہ میں پیش آتی ہیں! گویا اس اعتبار سے چیز وہی ضرورت سے زائد عمارت کا بنانا ہے۔ فی البنیان میں لفظ فی کے وہی معنی ہیں جو مثلاً اس جملہ کے ہیں کہ، اس زنجیر میں دو سیر لوہا ہے، ظاہر ہے کہ اس جملہ سے یہ مراد نہیں لیا جاتا کہ وہ زنجیر خالص دو سیر لوہا ہے۔ خرابی سے مراد دین کی خرابی اور آخرت کا نقصان ہے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ خود عمارت کی خرابی مراد ہو یعنی عمارت کا بنانا، گویا اس کی خرابی و تباہی کی بنیاد رکھنا ہے کہ بہر صورت جو عمارت بنے گی وہ انجام کار تباہ و برباد ہوگی جیسا کہ کہا جاتا ہے لدو للموت وابنوا للخراب یعنی پیدا کرو مرنے کے لئے اور عمارت بناؤ خراب ہونے کے لئے۔ بعض شارحین نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ عمارتوں میں حرام امور اور گناہوں کے ارتکاب سے اجتناب کرو، یعنی عمارتیں اس لئے نہ بناؤ کہ ان میں فسق و فجور کے لئے اٹھنا بیٹھنا رکھو۔ اوباش لوگوں کے ساتھ مجلس بازی کرو اور ان کو ناجائز کاموں کا اڈہ بناؤ کیونکہ جس عمارت میں فسق و فجور کی گرم بازاری رہتی ہے اور اوباش لوگوں کی مجلسیں جمتی ہیں وہ آخرکار تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ ملا علی قاری (رح) نے اس جملہ کیونکہ عمارتوں میں حرام مال لگانا الخ کے دونوں احتمال بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ (ضرورت سے زائد) تعمیر میں حلال مال لگانا جائز ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ حدیث مذکور جواز پر دلالت نہیں کرتی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ دوسرا احتمال باب کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
Top