مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5099
وعن سهل بن سعد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن هذا الخير خزائن لتلك الخزائن مفاتيح فطوبى لعبد جعله الله مفتاحا للخير مغلاقا للشر وويل لعبد جعله الله مفتاحا للشر مغلاقا للخير . رواه ابن ماجه
خیر وشر کے خزانے اور ان کی کنجی
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ خیر (یعنی مال و دولت کے انبار) خزانے ہیں اور ان خزانوں کے لئے کنجیاں ہیں (یعنی اللہ اپنے جن نیک اور مخیر بندوں کو مال و دولت سے نوازتا ہے وہ گویا ان خدائی خزانوں کی کنجیاں ہوتے ہیں کہ ان کے مالی عطیات اور صدقہ و خیرات کے ذریعہ فقیر و مفلس اور ضرورتمند بندگان اللہ فائدہ اٹھاتے ہیں) پس (دنیوی کامیابی اور ترقی اور اخروی فلاح وسعادت کی) بشارت ہو اس بندہ کو کہ جس کو اللہ نے خیر (یعنی نیکیوں و بھلائیوں اور مالی بخشش وعطاء) کے دروازے کھلنے اور برائی (یعنی بخل و خست اور ضرورتمندوں سے بےپروائی کے دروازے بند ہونے کا سبب و ذریعہ بنایا ہے اور دین و دنیا کی ہلاکت و تباہی ہے اس بندہ کے لئے جس کو اللہ نے برائی کے دروازے کھلنے اور خیر کے دروازے بند ہونے کا سبب و ذریعہ بنایا ہے یعنی جو مالدار اپنی دولت کو بڑھانے کے چکر میں رہتا ہے اور ضرورتمند بندگان اللہ کی خبر گیری اور امور خیر میں خرچ کرنے کی اہمیت سے بےپرواہ رہ کر گویا بخل و خست میں مبتلا ہوتا ہے اس کے لئے تباہی ہی تباہی ہے۔ (ابن ماجہ)

تشریح
مذکورہ بالا ترجمہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی اشعۃ اللہمعات ماخوذ ہے، جہاں تک ملا علی قاری (رح) کا تعلق ہے تو انہوں نے حدیث کی وضاحت اس طور پر کی ہے کہ ہذا الخیر میں خیر جنس خیر (یعنی ہر طرح کی بھلائی) مراد ہے، خزائن سے مراد خیر کی انواع کثیر ہیں یعنی وہ بھلائیاں مختلف انواع رکھتی ہیں اور ان کو اللہ کے بندوں کے درمیان اس طرح مخزون و مرکوز کیا گیا ہے جیسے خزانوں کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے لتلک الخزائن مفاتیح (ان خزانوں کے لئے کنجیاں ہیں) میں کنجیوں سے مراد اللہ کے ان نیک بندوں کے ہاتھ قوائے عمل ہیں جو اس روئے زمین پر امور کائنات میں تصرف و تسلط کے لئے اللہ کے وکیل و نائب کی حیثیت رکھتے ہیں مفتاحا للخیر خیر کی کنجی سے مراد، ان بندوں کا ان بھلائیوں اور نیکیوں کو اختیار کرنا اور پھیلانا ہے، خواہ وہ علم و عمل کو اختیار کرنے کی شکل میں ہو۔ اور مفتاحا للشر شر کی کنجی سے مراد خیر و بھلائی کے راستہ کو مسدود کرنا اور بدی و برائی کے راستہ کو کھولنا ہے اور اس برائی کے راستہ کا کھلنا خواہ کفر و شرک وتکبر و سرکشی اور بد عملی و فتنہ انگیزی کو اختیار کرنے کے ذریعہ ہو یا بخل و خست اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بدسلوکی اختیار کرنے کی صورت میں ہو۔ امام راغب (رح) کہتے ہیں کہ خٰیر اس چیز کو کہتے ہیں جس کی طرف ہر انسان رغبت رکھتا ہے جیسے علم و عقل اور احسان و مہربانی وغیرہ اور اسی طرح ہر وہ چیز جو نفع پہنچاتی ہے اور جو چیز خیر کی ضد اور اس کے برعکس ہوتی ہے اس کو شر کہتے ہیں۔ نیز خیر و شر اگرچہ ایک دوسرے کی ضد اور مخالف ہیں مگر کبھی کبھی ان دونوں میں اتحاد ذاتی اور فرق اعتباری بھی ہوتا ہے یعنی ایک ہی چیز دو اعتبار سے خیر اور شر دونوں کی حامل بن سکتی ہے کہ ایک شخص کے حق تو وہ خیر و بھلائی کا ذریعہ ہو اور دوسرے شخص کے حق میں وہی چیز شر اور برائی کا سبب بن جائے جیسے مال ہی کی مثال لے لیجئے وہ ایک شخص مثلا عمر کے حق میں تو خیر کا ذریعہ ہوتا ہے جب کہ عمر نے اس کو جائز طور پر حاصل کیا ہو اور جائز مصارف میں اس کو خرچ کیا اور وہی مال ایک دوسرے شخص مثلاً زید کے حق میں شر کا سبب بن سکتا ہے جب کہ زید اس مال پر ناجائز طور سے تصرف و قبضہ کرے۔ اسی طرح علم کی مثال بھی ہے کہ ایک ہی وقت میں بعض لوگوں کی نسب سے اللہ اور بندہ کے درمیان حجاب بن جاتا ہے اور ان لوگوں پر عزاب الٰہی کا سبب ہوتا ہے جب کہ وہ لوگ اس علم سے ہدایت و راستی حاصل کرنے کی بجائے ضلالت و گمراہی میں پھنس جائیں اور وہی علم دوسرے لوگوں کے حق میں اللہ کی معرفت و قربت اور ایمان و یقین کا ذریعہ بنتا ہے جب کہ وہ لوگ اس علم سے ہدایت و راستی حاصل کریں اور اس کے صحیح تقاضوں پر عمل کریں! اسی پر اور عبادات کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے بعض عبادتیں، عجب و غرور کی باعث ہوتی ہیں جب کہ ان کو اختیار کرنے والا ریاء و نمائش اور نام و نمود کا راستہ اختیار کرے اور بعض عبادتیں ایمانی و روحانی کیف و سرور اور نورانیت اور ذوق عبودیت کا باعث بنتی ہیں جب کہ ان کو اختیار کرنے والا اخلاص و للہیت کے جذبہ سے سرشار ہو! دنیاوی چیزوں مثلاً گھوڑے آلات حرب اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے بارے میں بھی یہ بات ہے کہ کبھی تو یہ چیزیں دشمنان اللہ کے ساتھ جہاد کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور اس طرح سے بندہ کو جنت میں لے جانے کا وسیلہ ہوتی ہے اور کبھی یہی چیزیں فتنہ و فساد پھیلانے یہاں تک کہ اللہ کے نہایت نیک و برگزیدہ بندوں (جیسے انبیاء و اولیاء) کے قتل و خونریزی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور ان کی وجہ سے انسان دوزخ کے اسفل ترین درجہ میں پہنچ جاتا ہے۔
Top