مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5093
وعن أبي أمامة أن رجلا من أهل الصفة توفي وترك دينارا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كية قال : ثم توفي آخر فترك دينارين فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كيتان رواه أحمد والبيهقي في شعب الإيمان
اہل زہد کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ قلیل مقدار میں بھی اپنے پاس دنیاوی مال رکھیں
حضرت ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ اصحاب صفہ میں سے ایک شخص نے وفات پائی اور ایک دینار کی صورت میں اپنا ترکہ چھوڑا رسول کریم ﷺ نے (جب اس دینار کو دیکھا تو) فرمایا کہ یہ دینار (اس شخص کی پیشانی، پشت اور پہلو پر) ایک داغ ہے حضرت ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ پھر (کچھ دنوں بعد) صفہ والوں میں سے ایک اور شخص نے وفات پائی اور اس نے اپنے ترکہ میں دو دینار چھوڑے، رسول کریم ﷺ نے (ان دیناروں کو دیکھ کر فرمایا۔ یہ دو دینار دو داغ ہیں۔ (احمد، بیہقی)

تشریح
صفہ والے ان غریب اور گھر بار نہ رکھنے والے صحابہ ؓ کی جماعت کو کہتے ہیں جو مستقل طور پر صفہ مسجد میں رہا کرتی تھی اور صفہ مسجد دراصل مسجد نبوی ﷺ سے متصل ایک مسقف (چھت دار) جگہ تھی اور بالکل شروع میں، جب کہ مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا یہی جگہ مسجد کے طور پر استعمال ہوتی تھی، لیکن جب کچھ عرصہ بعد کعبۃ اللہ کو قبلہ قرار دیا گیا تو اس جگہ کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا اور اس کے برابر میں مسجد نبوی ﷺ بنائی گئی! صحابہ ؓ کی جو مقدس جماعت صفہ میں رہتی تھی وہ ستر اسی نفر پر مشتمل تھی۔ یہ تعداد مختلف اوقات میں کم و زیادہ بھی ہوتی رہتی تھی، ان صحابہ ؓ کا چونکہ نہ کوئی مکان تھا نہ ان کے پاس کچھ مال و اسباب تھا اور نہ کوئی کاروبار زندگی اور اہل و عیال رکھتے تھے اس لئے وہ کامل زہد اختیار کئے ہوئے تھے اور اللہ کی ذات پر توکل و اعتماد کے سہارے اس جگہ پڑے رہتے تھے اور ہمہ وقت ذکر وشغل، ریاضت و مجاہدہ اور تلاوت قرآن مجید میں مشغول اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث پاک کو یاد و محفوظ کرنے میں منہمک رہ کر ہمہ وقت انوار و برکات حاصل کرتے رہتے تھے، ان حضرت کو اضیاف اللہ (اللہ کے مہمان) کہا جاتا ہے! جو صحابہ ؓ استطاعت رکھتے تھے وہ ان کی خدمت کیا کرتے تھے، ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی میں حتی الامکان سعی کرتے تھے، کچھ کو ان کی جگہ پر نہایت عزت و احترام کے ساتھ کھانے پینے کا سامان پہنچاتے، کچھ کو بطور مہمان اپنے گھر لے جاتے اور وہاں ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے اور ان میں سے کتنے ہی حضرات ایسے تھے جو آنحضرت ﷺ کی خصوصی عنایات و توجہ سے بہرہ مندہ ہوتے تھے اور سرکار رسالت پناہ ﷺ کے آستانہ پاک سے کھانا کھاتے تھے اور اسی وجہ سے کبھی کبھی آنحضرت ﷺ کے ایسے معجزات کے صادر ہونے کا باعث بھی بنتے تھے جس سے تھوڑا سامان خوراک حیرت انگیز طور پر سب کے لئے کافی ہوجاتا تھا، مثال کے طور پر، کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ دودھ کا صرف ایک پیالہ، جو ایک شخص کی بھی غذائی ضرورت کے لئے کافی ہوجانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اعجاز نبوی ﷺ کے طفیل ان سب حضرات کو شکم سیر کردیتا تھا! آنحضرت ﷺ کو حکم الٰہی تھا کہ آپ ﷺ ان حضرات کے درمیان تشریف رکھا کریں، چناچہ آپ ﷺ ان حضرات کو وقتا فوقتا اپنے حضور شرف یابی سے نوازتے رہتے تھے اور کسی وقت بھی انہیں اپنی بیچارگی اور لاچاری کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ ﷺ ان سے فرمایا کرتے تھے کہ (تم لوگ اپنے کو تنہا اور بےکس مت سمجھو) میں تم میں ہی سے ہوں۔ نیز ان کو یہ بشارت دیتے کہ آخرت میں تم میرے ساتھ رہو گے اور میرے ہمراہ جنت میں جاؤگے! مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ ؓ بھی انہی (صفہ والے) صحابہ میں سے تھے، ؓ۔ واضح رہے کہ صوفیاء کی جماعت کو (زہد و توکل اور دنیا سے ترک تعلق) اہل صفہ کے ساتھ مشابہت و مناسبت حاصل ہے اور اگرچہ لفظ صوفیہ کو صفہ سے مشتق قرار دینا اور یہ کہنا کہ مسلک زہد و توکل اختیار کرنے والے کو صوفی کہنا لفظ صفہ کی بنیاد پر ہے، ایک غیر حقیقی بات ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ معنوی طور پر صوفیاء کی نسبت اہل صفہ کی طرف کی جاسکتی ہے۔ اب اصل حدیث کی طرف آئیے! اہل صفہ میں سے وفات پانے والے حضرات کا اپنے پیچھے دینار چھوڑ جانا اور اس پر آنحضرت ﷺ کا وعید بیان فرمانا اس بنیاد پر تھا کہ اگرچہ حاجت و ضرورت کے تحت ایک دینار یا دو دینار جیسا معمولی سا دنیاوی مال بچا کر رکھنا اور جمع کرنا شرعی طور پر گناہ کا موجب نہیں ہے اور نہ یہ کوئی ایسی بات ہے جس کو غیر مناسب قرار دیا جاسکے بلکہ اگر کوئی شخص ادائے حقوق (مثلاً زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی) کے بعد پورا خزانہ بھی جمع کرلے اور دنیا بھر کا مال و اسباب اپنے پاس رکھے تو اس کو خلاف شرع نہی کہیں گے الاّ یہ کہ کوئی شخص اس طرح مال وزر کا انبار لگائے اور جمع کرے کہ نہ تو اس کی زکوٰۃ ادا کرے اور نہ دوسرے مال حقوق کی ادائیگی کا لحاظ رکھے تو بیشک یہ ممنوع ہوگا، لیکن اس حقیقت کے باوجود اس سے انکار نہی کیا جاسکتا کہ اہل زہد اور تارکان دنیا جو سب کچھ چھوڑ کر، سب سے آنکھیں بند کر کے اور اہل فقر کی محبت کر کے باب توکل وفقر پر بیٹھتے ہیں ان کی شان جداگانہ ہے، ان کے پاس ضرورت سے زائد دنیاوی مال و اسباب کی حقیر سے حقیر مقدار کا بھی ہونا غیرموزوں ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کا مذکورہ ارشاد گویا فقروتجرد کے اس وعدے کے خلاف سخت تنبیہ وسرزنش کے طور پر ہے جو حقیقت حال سے مطابقت نہ رکھے۔ اور غالباً اسی وجہ سے راوی نے ان دونوں حضرات کے ذکر میں یہ نہیں کہا کہ اصحاب میں سے ایک شخص نے وفات پائی۔ بلکہ یہ کہا کہ اصحاب صفہ میں سے ایک شخص نے وفات پائی گویا انہوں نے ان دونوں صحابیوں کی طرف صفہ کی نسبت خاص طور پر کی تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اگر کوئی دوسرا صھابی ؓ اپنے ترکہ میں ایک یا دو دینار چھوڑ کر وفات پاتا تو یہ کوئی اہم بات نہیں تھی لیکن یہ ان اصحاب صفہ میں سے دو شخصوں کا ذکر ہے جن کی شخصیات کا امتیاز ہی زہد وفقر تھا، لہٰذا ان اصحاب صفہ کی صحبت ومعیت میں رہنا اور خود کو ان کی امتیازی خصوصیت (یعنی زہد وفقر اور توکل) کا حامل قرار دینا، مطلق درہم و دینار جمع کرنے کے منافی ہے۔ ملا علی قاری (رح) نے اس حدیث کی وضاحت میں ایک دوسرے رخ سے بحث کی ہے، ان کے منقولات کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان دونوں صحابہ ؓ کے بارے میں جو یہ وعید بیان فرمائی وہ اس امر کے پیش نظر تھی کہ وہ دونوں صحابہ ؓ دراصل ان خستہ ھال و مسکین لوگوں (یعنی اصحاب صفہ) میں سے تھے جن کے فقروفاقہ کی وجہ سے ان پر دوسرے لوگ اپنا مال خیرات کرتے تھے اور اللہ واسطے ان کو کھلاتے پلاتے تھے، اس طرح وہ دونوں حضرات یا تو ازروئے مال یا ازروئے حال بمنزلہ سائلین کے تھے اور جیسا کہ معلوم ہے، کسی بھی شخص کے لئے یہ قطعا حلال نہیں ہے کہ اگر اس کے پاس ایک دن کا بھی بقدر کفاف کھانے پینے کا سامان ہو تو وہ دست سوال دراز کرے، لہٰذا وہ دنوں حضرات اپنے پاس دینار ہونے کے باوجود ان چیزوں میں سے جو کچھ کھاتے پیتے تھے جو دوسرے لوگ صدقہ وخیرت کے طور پر ان کے پاس لاتے تھے، وہ گویا ان کے حق میں حرام تھا۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جو شخص اپنے آپ کو فقراء و مساکین کی صورت میں ظاہر کرے، مثلاً پھٹے پرانے کپڑے پہنے اور خستہ حالی کے ساتھ رہے یا صوفیاء یا مشائخ کی وضع قطع اختیار کرے اور اس کے پاس از قسم نقد یا مثل نقود (یعنی سونا، چاندی، درہم و دینار یا نوٹ اور روپیہ پیسہ وغیرہ) کچھ ہو اور اس کے باوجود لوگوں کے ہاتھ میں سے وہ چیز لے لے اور قبول کرلے جو کسی کو صدقہ و خیرات کے طور پر دینے کے لئے ہو اور پھر وہ اس چیز کو کھائے پئے یا اپنے مصرف میں لائے تو وہ چیز اس کے حق میں حرام ہوگی۔ اسی طرح وہ شخص اپنے آپ کو عالم یا صالح یا شریف ظاہر کرے اور حقیقت کے اعتبار سے وہ ایسا نہ ہو اور لوگ اس کو اس کے علم یا شرافت کی وجہ سے کچھ دیں تو ان کی دی ہوئی وہ چیز اس کے حق میں حرام ہوگی۔ منقول ہے کہ مشہور بزرگ حضرت شیخ ابواسحق گا ذروئی نے ایک فقراء کو ایک ایسے کھانے پر دیکھا جو مستحقین کے لئے تیار کیا گیا تھا، تو انہوں نے ان فقرا سے فرمایا تم لوگ حرام کھا رہے ہو؟ ان سب فقراء نے یہ سن کر کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اس کے بعد حضرت شیخ (رح) نے فرمایا دیکھو یہ کھانا صرف ایسے لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس از قسم دنیاوی مال کچھ بھی نہ ہو، لہٰذا تم سے جو شخص ایسا ہو وہ تو اس کھانے کو کھائے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہ کھائے، چناچہ اس کھانے کو کچھ نے کھایا اور کچھ وہاں سے ہٹ گئے۔ (یہ دیکھ کر) حضرت شیخ (رح) نے فرمایا۔ سبحان اللہ کھانا تو ایک ہی ہے لیکن کچھ لوگوں کے لئے حلال ہے اور کچھ لوگوں کے لئے حرام۔ اس سے واضح ہوا کہ وہ اوقاف کہ جو محض فقراء کے لئے ہیں ان کی آمدنی اور ان کے وسائل کو کسی بھی ایسے شخص کا اپنے مصرف میں لانا مطلقا حلال نہی ہے جو شرعی طور پر غنی ہو۔ چناچہ ان مکانات اور کمروں میں جو فقراء و مساکین کے لئے وقف ہیں ایسے لوگوں کا مفت رہائش اختیار کرنا حرام ہے جو فقیر و مسکین نہ ہو جیسا کہ علامہ ابن ہمام (رح) نے صراحت کی ہے کہ غنی پر حرام ہے کہ وہ خانقاہوں کے وقف حجروں میں مفت رہائش اختیار کرے۔ لہٰذا اس قول کو قابل اعتبار نہیں سمجھنا چاہئے جس کا حاصل یہ ہے کہ حرمین شریفین کے اوقاف فقیر وغنی ہر ایک کے لئے ہیں کیونکہ اگر اس بات کو صحیح بھی مان لیا جائے کہ واقعۃً وقف کرنے والوں نے ان اوقاف کو عام رکھا تھا تو بھی ان اوقاف سے غنی کو فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوگا۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک غنی کے حق میں کسی چیز کو وقف کرنا صحیح نہیں ہے جب کہ وہ غیر محصور ہو۔
Top