مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5086
وعن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال يجاء بابن آدم يوم القيامة كأنه بذج فيوقف بين يدي الله فيقول له أعطيتك وخولتك وأنعمت عليك فما صنعت ؟ فيقول يا رب جمعته وثمرته وتركته أكثر ما كان فارجعني آتك به كله . فيقول له أرني ما قدمت . فيقول رب جمعته وثمرته وتركته أكثر ماكان فارجعني آتك به كله . فإذا عبد لم يقدم خيرا فيمضي به إلى النار . رواه الترمذي وضعفه
جو مالدار صدقہ وخیرات کے ذریعہ آخرت کے لئے کچھ نہیں کرتے ان کے بارے میں وعید
حضرت انس ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ابن آدم کو اس طرح حقارت و ذلت کے ساتھ) پیش کیا جائے گا گویا کہ وہ بکری کا بچہ ہے، پھر اس کو اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ (فرشتہ کی وساطت سے یا خود براہ راست زبان قال یا زبان حال سے) اس سے فرمائے گا کہ میں نے (دنیا میں) تجھ کو زندگانی، عمل و دانش، صحت و تندرستی اور امن و عافیت جیسی نعمت عطاء کی تھی (مال و دولت، حشم وخدم اور جاہ وعزت جیسی چیزوں کا مالک) بنایا تھا اور (اس سے بڑی) نعمت (یہ) عطا کی تھی (کہ اپنی کتاب نازل کی، اپنا رسول ﷺ بھیجا اور ہدایت و راستی کا نور پھیلایا) پس تو نے کیا کام کیا؟ یعنی کیا تو نے ان چیزوں کے حقوق ادا کئے اور ان سب نعمتوں کا شکر گزار رہا؟ ابن آدم عرض کرے گا، میرے پروردگار! میں نے تو بس یہ کیا کہ تجارت اور کاروبار کے ذریعہ مال و دولت جمع کرنے اور اس کو بڑھانے میں لگا رہا اور مرتے وقت اس کو دنیا میں اس سے زیادہ چھوڑ کر آیا جتنا کہ میری زندگی کے دنوں میں پہلے میرے پاس تھا اور اب آپ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیجئے تاکہ میں اس تمام مال و دولت کو آپ کی راہ میں خرچ کروں اور اس کا ثواب لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ یہ تو ممکن نہیں کہ تمہیں دنیا میں دوبارہ بھیجا جائے اور تم جو مال و دولت دنیا میں چھوڑ کر چلے آئے تھے وہ بھی اب تمہارے لئے کار گر نہیں ہے، ہاں اگر تم نے (اس مال و دولت میں سے کچھ حصہ بھی صدقہ و خیرات کیا ہو اور ثواب کی صورت میں) اس کو آگے یہاں آخرت میں بھیجا ہو تو مجھے اس کو دکھلاؤ۔ لیکن اس نے چونکہ اس مال و دولت سے کچھ بھی حصہ آخرت کے کاموں میں خرچ نہیں کیا ہوگا اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر نہایت شرمندہ وخجل ہوگا اور جیسا کہ مجرموں کی عادت ہے کہ جب اپنے جرم میں پکڑے جاتے ہیں اور اپنی صفائی میں کوئی معقول عذر بیان نہیں کرسکتے تو بار بار ایک ہی بات کو جو پہلے کہہ چکے ہوتے ہیں، دہراتے رہتے ہیں، وہ ابن آدم بھی ایک تو اس وجہ سے اور دوسرے اپنی اس بات کا جواب نہ پانے کی وجہ سے دوبارہ وہ عرض کرے گا کہ میں تو بس مال و دولت کو جمع کرنے اور اس کو بڑھانے میں لگا رہا اور اس کو دنیا میں اس سے زیادہ چھوڑ کر آیا جتنا کہ پہلے تھا اور اب آپ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیجئے تاکہ میں اس تمام مال و دولت کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اس طرح یہ ظاہر ہوجائے گا کہ اس کو دنیا میں جو مذکورہ چیزیں دی گئی تھیں ان میں سے اس نے کوئی بھی بھلائی آگے (آخرت میں) نہیں بھیجی ہے لہٰذا اس کو دوزخ میں پہنچائے جانے کا حکم دیا جائے گا۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور اس کی اسناد کو ضعیف قرار دیا ہے (اگرچہ معنی کے لحاظ سے یہ بالکل صحیح ہے)

تشریح
طیبی (رح) نے کہا ہے کہ اس حدیث میں ابن آدم کی جس حالت کو ذکر کیا گیا ہے کہ جس بندہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکورہ چیزیں اور نعمتیں حاصل ہوں اور وہ ان کے ذریعہ آخرت کی بھلائی حاصل کرنے سے غافل رہے تو اس کی مثال اس غلام کی سی ہے جس کو اس کا آقابہت سا مال و اسباب اس مقصد کے لئے دے کہ وہ اس کے ذریعہ تجارت کر کے زیادہ سے زیادہ نفع کمائے مگر وہ غلام اپنے آقا کی مرضی اور اس کے حکم سے سرتابی کر کے اس سارے مال و اسباب کو لٹا کر تلف وضائع کردے یا ایسے کاروبار اور تجارت میں پھنسا دے جس کا حکم اس کو نہیں دیا گیا تھا تو ظاہر ہے کہ وہ غلام نہ صرف نااہل سمجھا جائے گا بلکہ مستوجب سرزنش بھی قرار پائے گا، ٹھیک اسی طرح وہ بندہ بھی نہایت ٹوٹے میں رہے گا اور مستوجب عذاب قرار دیا جائے گا۔ ابوحامد (رح) نے کہا ہے کہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ اگرچہ ہر بھلائی، ہر لذت اور ہر سعادت یہاں تک کہ ہر مطلوب، کو نعمت کہا جاتا ہے لیکن حقیق نعمت بس اخروی سعادت ہے اس کے علاوہ، کسی بھی چیز کو سعادت کہنا غلط ہے، بلکہ کسی دنیاوی چیز پر مجازا بھی سعادت کا اطلاق کرنا یعنی اس کو دنیوی سعادت کہنا بھی صحیح نہیں ہے، ہاں جو دنیاوی چیزیں اخروی سعادت کے حصول کا سبب و ذریعہ ہوں اور اس کی راہ میں کسی ایک واسطہ کئی واسطوں کے ساتھ معاون ومدد گار ہوں تو ان چیزوں کو نعمت کہنا صحیح ہوسکتا ہے اور یہ بھی اس وجہ سے کہ وہ چیز حقیقی نعمت تک پہنچا سکتی ہیں۔
Top