مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5079
وعن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم نام على حصير فقام وقد أثر في جسده فقال ابن مسعود يا رسول الله لو أمرتنا أن نبسط لك ونعمل . فقال ما لي وللدنيا ؟ وما أنا والدنيا إلا كراكب استظل تحت شجرة ثم راح وتركها . رواه أحمد والترمذي وابن ماجه
دنیا کے عیش وآرام سے حضور ﷺ کی بے رغبتی
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ بورئیے پر سوئے اور سو کر اٹھے تو آپ ﷺ کے جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑے ہوئے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت ابن مسعود ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم آپ ﷺ کے لئے نرم بستر بچھا دیں اور اچھے کپڑوں کا انتظام کردیں (تاکہ آپ ﷺ اس سخت بورئیے پر لیٹنے سے بےآرامی محسوس نہ کریں) حضور ﷺ نے فرمایا (عزیز) مجھ کو اس دنیا (کے عیش و آرام) سے اور اس دنیا کو مجھ سے کیا سروکار؟ میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سایہ کی تلاش میں آئے اور وہاں کچھ دیر تک سایہ سے فائدہ اٹھا نے کے لئے) اپنی سواری ہی پر کھڑا رہے اور پھر اس درخت کو وہیں چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
مالی وللدنیا میں حرف ما، نفی کے لئے ہے اور اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو مجھے اس دنیا کے ساتھ کچھ الفت ہے اور نہ اس دنیا کو میرے ساتھ کوئی محبت و الفت ہے کہ میں اس دنیا کے تئیں کوئی رغبت و چاہت رکھوں، اس کا عیش و آرام چاہوں اور اس کی بےآرامی سے بچنے کے لئے اس کی آرام دہ چیزوں جیسے نرم و گدیلے بستر اور نفیس واعلیٰ کپڑوں وغیرہ کا مالک بنوں۔ ویسے اس حرف ما کو استفہامیہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے (جیسا کہ ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے) اور اس صورت میں جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ مجھ کو اس دنیا سے کون سی الفت، محبت ہے یا اس دنیا کی طرف میری رغبت ومیلان سے یا میری طرف اس دنیا کی رغبت والفت سے مجھے کون سی نفع بخش چیز حاصل ہوگی؟ کیونکہ میں تو آخرت کا طلبگار ہوں اور دنیا اس آخرت کی سوکن اور ضد ہے۔ درخت کے سایہ سے فائدہ اٹھانے کے ضمن میں خاص طور پر سوار ہی کا ذکر کرنا اس درخت کے نیچے اس کے ٹھہرنے کی مدت کے قلیل ہونے اور جلد ہی وہاں سے رخصت ہوجانے کی بناء پر ہے، یعنی یہ بات سب جانتے ہیں کہ کسی درخت کے سایہ سے فائدہ اٹھانے والا اگر کوئی سوار مسافر ہو اور وہ اپنی سواری سے اترے بغیر اس درخت کے نیچے کھڑا ہے تو وہ وہاں زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا۔ بلکہ بہت قلیل عرصہ کے لئے اس سایہ میں کھڑا رہ کر آگے چل دیتا ہے۔ نیز سوار کی مثال بیان کرنے سے اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح کسی مسافر کی منزل مقصود جب دور ہوتی ہے تو وہ دوران سفر کسی راحت و آرام کی زیادہ پرواہ کئے بغیر زیادہ سے زیادہ راستہ طے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں وہاں زیادہ ٹھہر کر اپنا وقت برباد نہیں کرتا اسی طرح ہم بھی اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہیں کہ ہماری منزل مقصود یعنی آخرت بہت دور ہے اور اس کا راستہ کٹھنائیوں سے بھرا ہوا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی راہ آخرت کو زیادہ سے زیادہ طے کرنے کی سعی و اہتمام کریں اور کسی بھی ایسی چیز کی طرف ملتفت اور مائل نہ ہوں جو منزل مقصود کی طرف ہمارے سفر میں رکاوٹ بن سکے۔
Top