مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5069
وعن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تتخذوا الضيعة فترغبوا في الدنيا . رواه الترمذي والبيهقي في شعب الإيمان
کمانے میں اتنا منہمک نہ رہو کہ اللہ سے غافل ہو جاؤ
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ضیعہ کو اس طرح) اختیار نہ کرو کہ وہ دنیا کی طرف رغبت کا سبب بن جائے۔ (ترمذی، بیہقی)

تشریح
ضیعۃ سے مراد دنیاوی اسباب و سامان اور کمانے کے ذرائع ہیں جیسے صنعت و تجارت، زراعت، زمین و جائیداد اور باغ وگاؤں وغیرہ، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ حصول معاش اور کمانے کے جو ذرائع خواہ وہ مذکورہ چیزیں ہوں یا ان کے علاوہ کچھ اور ہوں، ان میں اس طرح کی مشغولیت اور انہماک اختیار کرنا ممنوع ہے جس سے انسان عبادت الٰہی اور آخرت کی طرف اچھی طرح متوجہ نہیں رہتا بلکہ زیادہ طلبی کی حرص میں مبتلا ہو کر ہر وقت دنیاوی دھندوں میں مشغول رہتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ حدیث میں مذکورہ حکم اس شخص کے حق میں ہے جو حصول معاش کے دنیاوی اسباب و وسائل میں گرفتار ہو اور مسبب حقیقی (اللہ تعالیٰ ) کی طرف توجہ اور اس کی یاد سے بےپرواہ ہو اور حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی سے باز رہے، اگر ایسا نہ ہو تو پھر حصول معاش کے جائز اسباب و ذرائع کو اختیار کرنے اور حلال دنیاوی دھندوں میں مشغول ہونے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ واضح رہے کہ قرآن کریم کی اس آیت ( رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَا ءِ الزَّكٰوةِ ) 24۔ النور 37) کے جس طرح یہ معنی مراد لئے جاسکتے ہیں کہ قرآن نے ان الفاظ کے ذریعہ ان لوگوں کی تعریف وتحسین فرمائی ہے جو تجارت وبیع کی مشغولیت کو محض اس لئے اختیار نہیں کرتے کہ امور آخرت کی طرف ان کے متوجہ رہنے میں انہیں کوئی مانع پیش نہ آئے اسی طرح یہ معنی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں کہ اس آیت میں دراصل ان لوگوں کی تعریف وتحسین فرمائی گئی ہے جو اپنی تجارت وغیرہ میں مشغول رہنے کے باوجود امور آخرت سے غافل نہیں ہوتے بلکہ اپنی دنیا کے ساتھ اپنی آخرت کے صلاح و فلاح کی طرف بھی متوجہ رہتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ مؤخرالذکر معنی ہی زیادہ موزوں معلوم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ واقام الصلوۃ وایتاء الزکوۃ کے الفاظ کی مناسبت سے یہی مفہوم ہوتا ہے۔
Top