مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5066
وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ما ينتظر أحدكم إلا غنى مطغيا أو فقرا منسيا أو مرضا مفسدا أو هرما مفندا أو موتا مجهزا أو الدجال فالدجال شر غائب ينتظر أو الساعة والساعة أدهى وأمر رواه الترمذي والنسائي
غنیمت کے موقعوں سے فائدہ نہ اٹھانا اپنے نقصان وخسران کا انتظار کرنا ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی شخص تونگری کا انتظار کرتا رہتا ہے جو گنہگار کرنے والی اور امرونہی کی حدود سے متجاوز کرنے والی ہے یا فقر و افلاس کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ جو طاعت حق کو بھلا دینے والا ہے (یعنی فقروافلاس میں مبتلا ہونے والا شخص بھوک وبرہنگی کے مصائب میں گرفتار ہو کر اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے چکر میں پھنس کر اللہ کی عبادت وطاعت سے غافل ہوجاتا ہے، بیماری کا انتظار کرتا رہتا ہے جو (اپنی سختی وشدت کی وجہ سے) بدن کو (یا کمزور یاسستی کے سبب دینی زندگی کو) تباہ کردینے والی ہے، یا سخت بڑھاپے کا انتطار کرتا رہتا ہے جو بےعقل و بدحو اس اور بےہودہ گو بنا دیتا ہے، یا موت کا انتظار کرتا ہے جو ناگہا کام تمام کردیتی ہے (کہ بعض وقت توبہ کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی) یا دجال کا انتظار کیا جاتا ہے اور وہ آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا، یا وہ قیامت کا انتظار کرتا رہتا ہے جو حوادث، آفات میں سب سے زیادہ سخت وشدید ہے۔ (ترمذی، نسائی)

تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو فرصت و فراغت اور کچھ کرلینے کا موقع نصیب ہوتا ہے وہ اس کو غنیمت نہیں جانتا اور اس طرح گویا وہ اس وقت کا منتظر رہتا ہے جب وہ موقع ہاتھ سے نکل جائے اور ایسی صورت حال پیش آجائے جو اس کو ان بھلائیوں اور سعادتوں سے محروم کردے جن سے وہ بس اسی گزرے ہوئے زمانہ میں بہرہ مند ہوسکتا ہے، مثلاً اگر کوئی شخص فقروافلاس میں مبتلا ہوتا ہے تو چاہئے تو یہ کہ وہ اس حالت کو اپنے لئے غنیمت جانے اور یہ سمجھے کہ مال و دولت کی وجہ سے جو خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں ان سے اللہ نے بچا رکھا ہے اور اس وقت یہ موقع نصیب ہوتا ہے کہ اپنی موجودہ حالت پر صبر و استقامت کی راہ اختیار کر کے اللہ کا صابر بندہ بن جاؤں، لیکن اس کے بجائے وہ اپنی حالت فقر کا شاکی ہو کر مال ومتاع کا طلبگار ہوتا ہے اس کا نفس اس کو تونگری ومالداری کے پیچھے کھینچے کھینچے پھرتا ہے اور وہ گویا اس مال و دولت کی خواہش رکھتا ہے جس کا نشہ سرکشی میں مبتلا اور راہ راست سے دور کردیتا ہے، اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال و دولت سے نوازتا ہے وہ اپنی اس مالداری کی حالت میں ادائیگی شکر سے بےپروا ہوتا ہے اور اس مال و دولت کو بھلائیوں کے کاموں میں خرچ کرنے کے بجائے ادھرادھر لٹا کر اللہ کی اتنی بڑی نعمت کی بےقدری کرتا ہے اور اپنے اس طرز عمل سے گویا فقروافلاس کی طرف جانا چاہتا ہے جو معاشی تفکرات وپریشانیوں میں مبتلا کر کے عبادات وطاعت سے غافل کردیتا ہے۔ اسی پر حدیث کے دوسرے جملوں کے مطلب کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ الفاظ انتظار کرتا رہتا ہے دراصل ان لوگوں کے حق میں تنبیہ وسرزنش کے طور پر ہیں جو دین کے کاموں میں غفلت وسستی اور عبادات و طاعات میں تقصیر و کوتاہی کرتے ہیں، گویا ان کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت و اطاعت اور اپنے دین کی خدمت کی راہ آخر کب اختیار کرو گے؟ اگر تم نے دین کی خدمت اور اپنے رب کی عبادت وطاعت اس وقت نہیں کی جب تمہیں قلت مشاغل و فراغت وقت اور جسمانی طاقت و توانائی کی صورت میں اس کا بہترین موقع نصیب ہے تو پھر اس وقت کس طرح کر پاؤ گے جب یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا؟ اور کثرت مشاغل اور ضعف بدن و خرابی صحت کی وجہ سے تم اس پر پوری طرح قادر نہیں رہو گے؟ تو کیا تم فائدہ کا موقع چھوڑ کر ٹوٹے کے وقت کے منتظر ہو اور اپنے نقصان و خسران کی راہ دیکھ رہے ہو۔
Top