مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5064
وعن جابر قال ذكر رجل عند رسول الله صلى الله عليه وسلم بعبادة واجتهاد وذكر آخر برعة فقال النبي صلى الله عليه وسلم لا تعدل بالرعة . يعني الورع . رواه الترمذي
ورع کی اہمیت
حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو کثرت کے ساتھ عبادت وطاعت میں مشغول رہتا ہے اور اس میں بہت زیادہ سعی و اہتمام کرتا ہے (اگرچہ وہ گناہوں سے بہت کم اجتناب کرتا ہے) اور ایک دوسرے شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا جو پرہیز گاری کو اختیار کرتا ہے (چنانچہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ پہلا شخص افضل ہے یا دوسرا شخص؟ ) تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (پرہیزگاری کے بغیر) کثرت عبادت وطاعت اور اس میں سعی و اہتمام کرنے کو پرہیز گاری کے برابر نہ ٹھہراؤ (اگرچہ اس پرہیز گاری کے ساتھ عبادت وطاعت کی اس قدر کثرت اور سعی اور اہتمام شامل نہ ہو۔ (ترمذی)

تشریح
یعنی الورع کے الفاظ اصل حدیث کا جزو نہیں ہیں بلکہ کسی راوی کا اپنا قول ہے جس نے ان الفاظ کے ذریعہ رعۃ کی وضاحت کی ہے کہ اس لفظ سے مراد ورع ہے۔ واضح رہے کہ ورع سے مراد تقویٰ ہے یعنی حرام چیزوں سے بچنا اور جس کے مفہوم میں عبادات واجبہ کو ادا کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص عبادت و طاعات تو زیادہ کرے لیکن گناہوں سے اجتناب کے معاملہ میں کمزور ہو وہ اس شخص سے افضل نہیں ہوسکتا جو پرہیز گاری کو اختیار کئے ہوئے ہو، اگرچہ اس کے ہاں عبادت وطاعت کی کثرت اور اس میں زیادہ سعی و اہتمام نہ ہو۔
Top