مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5060
وعن مطرف عن أبيه قال : أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقرأ : ( ألهاكم التكاثر ) قال : يقول ابن آدم : مالي مالي . قال : وهل لك يا ابن آدم إلا ما أكلت فأفنيت أو لبست فأبليت أو تصدقت فأمضيت ؟ ؟ . رواه مسلم
مالدار کے حق میں اس کا اصل مال وہی ہے جو اس کے کام آئے
حضرت مطرف (رح) (تابعی) اپنے والد ماجد (حضرت عبداللہ بن شخیر ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ الہکم التکاثر پڑھ رہے تھے (جس کے معنی یہ ہیں کہ اے لوگو! تم آپس میں اپنی ثروت وامارت پر فخروناز کرنے کے سبب آخرت کے خوف سے بےپرواہ ہوگئے ہو) چناچہ حضور ﷺ نے (تکاثر یعنی آپس میں ثروت وامارت پر فخر کرنے کی وضاحت میں) فرمایا ابن آدم میرا مال، میرا مال کہتا ہے (یعنی جس کے پاس زیادہ مال ہوتا ہے وہ لوگوں پر جتاتا رہتا ہے کہ میں اتنا بڑا مالدار ہوں، میرے پاس اتنی زیادہ دولت ہے) پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ (لوگوں کا اپنے مال ومتاع پر فخر کرنا بالکل بےحقیقت بات ہے، واقعہ یہ ہے کہ) اے ابن آدم! تجھے تیرے مال سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اور تو جتنا فائدہ اٹھاتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ تو کچھ چیزوں کو کھالیتا ہے اور اس کو ختم کردیتا ہے، کچھ چیزوں کو پہنتا ہے اور ان کو بوسیدہ کردیتا ہے اور کچھ چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا ہے اور اس کو آخرت کے لئے ذخیرہ بنالیتا ہے۔ (مسلم)
Top