مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5059
وعن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أيكم مال وارثه أحب إليه من ماله ؟ قالوا : يا رسول الله ما منا أحد إلا ماله أحب إليه من مال وارثه . قال : فإن ماله ما قدم ومال وارثه ما أخر . رواه البخاري
اپنے مال کو ذخیرہ آخرت بناؤ
حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے (صحابہ ؓ کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ تم میں وہ کون شخص ہے جو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کے مال کو پسند کرتا ہو کہ اس کا مال اور روپیہ پیسہ خود اس کے لئے نہ ہو بلکہ اس کے وارثوں کے لئے ہو؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کے مال کو پسند کرتا ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ (تو سنو) حقیقت میں اس کا مال وہ ہے جس کو اس نے (صدقہ و خیرات وغیرہ کے ثواب کی صورت میں) آگے بھیج دیا ہے اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جس کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ (بخاری)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر لوگ واقعۃ اس بات کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے پاس جو مال و دولت ہے اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ انہی کو پہنچے تو چاہئے تو یہ کہ وہ اس مال و دولت کو یہاں دنیا میں جمع کرنے اور یہیں چھوڑ جانے کے بجائے آخرت میں کام آنے کے لئے آگے بھیجیں، جس کی صورت یہ ہے کہ اس کو صدقہ و خیرات اور نیک کاموں میں خرچ کر کے زیادہ سے زیادہ ثواب کمائیں، لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ لوگ اپنے مال و دولت اور روپیہ پیسہ کو جوڑ جوڑ کر جمع کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرنے اور حقداروں کا حق دینے سے گریز کرتے اور بخل کرتے ہیں اور اس طرح اس کو آگے بھیجنے کے بجائے ورثاء کے لئے یہیں دنیا میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مال و دولت کو اپنے لئے زیادہ پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے ورثاء کے لئے زیادہ پسند کرتے ہیں تاہم واضح رہے کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس شخص کے پاس جو کچھ مال و دولت اور اثاثہ ہو وہ ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کردے اور اپنے ورثاء کے لئے کچھ بھی چھوڑ کر نہ جائے، بلکہ اصل مقصد اس بات کی طرف راغب کرنا ہے کہ مال دار لوگ بخل وامساک کا طور طریقہ نہ اپنائیں اور فقراء و مساکین کی امداد واعانت سے گریز نہ کریں بلکہ اپنے مال و دولت اور اپنے روپیہ پیسہ کا کچھ حصہ اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کریں، چناچہ اپنے مال و دولت کے کچھ حصے کو صدقہ وخٰرات کرنے اور فقراء و مساکین اور نیک کاموں کے لئے وصیت کرنے کے بعد کہ جس کی زیادہ سے زیادہ مقدار تہائی حصہ ہے، باقی کو ورثاء کے لئے چھوڑنا افضل ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اپنے ورثاء کو تونگر چھوڑ کر جانا اس سے بہتر ہے کہ اپنا سارا مال وزر اللہ کی راہ میں خرچ کر کے دنیا سے رخصت ہوجائے اور اس کے ورثاء اپنی ضروریات کے لئے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔
Top