مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5057
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يقول العبد : مالي مالي . وإن ماله من ماله ثلاث : ما أكل فأفنى أو لبس فأبلى أو أعطى فأقتنى . وما سوى ذلك فهو ذاهب وتاركه للناس . رواه مسلم
مال ودولت میں انسان کا اصل حصہ
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بندہ کہتا رہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال (یعنی جو شخص مالدار اور دولت مند ہوتا ہے وہ اپنے مال و دولت پر بہت فخر کرتا ہے اور دوسرے پر یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ میرے پاس مال و دولت ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ اس کو اس مال و دولت میں سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ فی الجملہ تین چیزیں ہیں (اور ان تین چیزوں میں سے بھی صرف ایک چیز ایسی ہے جو اس کے لئے حقیقی نفع بخش اور باقی رہنے والی ہے، جب کہ بقیہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق دنیا سے ہے اور جو فنا ہوجانے والی ہے) ایک تو وہ چیز جس کو اس نے کھالیا اور ختم کردیا، دوسری وہ چیز جس کو اس نے پہن لیا اور بوسیدہ کردیا یعنی اتار کر پھینک دیا اور تیسری وہ چیز جس کو اس نے اللہ کی راہ میں دیا اور (آخرت کے لئے) ذخیرہ کرلیا، ان تینوں کے سوا اور جو کچھ ہے (جیسے زمین، جائیداد، مویشی، نوکر چاکر، روپیہ پیسہ اور دیگر قیمتی چیزیں وہ) سب ایسی ہیں جن کو وہ لوگوں کے لئے چھوڑ کر (اس دنیا سے) چلا جانے والا ہے۔ (مسلم)

تشریح
اس ارشاد گرامی میں اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ انسان محنت ومشقت کرکے دنیا کماتا ہے، مال و دولت حاصل کرتا ہے اور زمین و جائیداد بناتا ہے، پھر اس مال و دولت اور زمین جائیداد پر فخر کرتا ہے اپنے کو ایک بڑا آدمی ظاہر کرتا ہے اور لوگوں پر اپنی امارت و ثروت کا سکہ جمانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس بات کو محسوس نہیں کرتا کہ اول تو اس مال و دولت اور زمین جائیداد کا وبال بہت سخت ہے اور اس کی جواب دہی نہایت مشکل ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے پاس جو کچھ مال و دولت اور زمین جائیداد ہے اس سے خود اس کی ذات کو بہت معمولی فائدہ پہنچتا ہے اور یہ چیزیں بہت کم عرصہ تک اس کا ساتھ دینے والی ہیں، چناچہ حضور ﷺ نے بڑے نفسیاتی طریقہ پر واضح فرمایا کہ مال و دولت میں انسان کا اصل حصہ اور اس کا فی الجملہ فائدہ بس اتنا ہوتا ہے کہ وہ کچھ چیزوں کو تو کھاپی کر ختم کردیتا ہے۔ کچھ چیزوں کو پہن برت کر پرانا کردیتا ہے اور اگر اسے توفیق ہوتی ہے تو کچھ چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے ان کو اپنے لئے ذخیرہ آخرت بنالیتا ہے، باقی تمام مال و اسباب، ساری زمین جائیداد اور سب روپیہ پیسہ وغیرہ دوسروں کے لئے چھوڑ کر دنیا سے چلا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں سے آخری صورت (یعنی اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا) بیشک ایسی چیز ہے جو انسان کو اس کے مال و دولت سے سب سے بیش قیمت اور ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والا نفع پہنچاتی ہے اور اگر اس اصل نفع کے لئے مال و دولت کو حاصل کیا جائے اور اس کو جمع کیا جائے تو یہ یقینا سمجھ میں آنے والی بات ہوگی ورنہ محض چند روزہ دنیاوی اور جزوی منافع کے لئے مال و دولت جمع کرنا اور اس کی وجہ سے اپنی بڑائی کا اظہار کرنا بےحقیقت بات ہوگی، چناچہ اس ارشاد گرامی کے ان الفاظ او اعطی فاقتنی کے اس کو اللہ کی خوشنودی کے لئے فقراء و غرباء اور حاجتمندوں پر خرچ کرے تاکہ اس کا ثواب جمع ہوتا رہے اور پھر حاجت کے دن (روز حشر) کام آئے۔
Top