مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5055
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا وفي رواية كفافا . متفق عليه
رزق کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی دعا
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے یہ دعا فرمائی اے اللہ! تو آل محمد ﷺ کو بقدر قوت، رزق عطا فرما اور ایک روایت میں (قوت کے بجائے) کفاف کا لفظ ہے (بخاری ومسلم)

تشریح
ملاعلی قاری کے مطابق آل سے مراد آنحضرت ﷺ کی ذریت (اولاد) اور اہل بیت ہیں یا امت کے وہ لوگ مراد ہیں جو آپ ﷺ کے سچے تابعدار اور محبوب ہوں۔ اور حضرت شیخ عبدالحق (رح) نے یہ لکھا ہے کہ آل سے مراد آپ ﷺ کی امت کے تمام افراد اور متبعین مراد ہیں جیسا کہ لفظ آل کے اصل معنی یہی مراد لئے جاتے ہیں اور اگر اہل و عیال ہی کو مرادلیا جائے تو بھی قیاس اور دلالت کو بنیاد بنا کر ان (اہل و عیال) کے علاوہ امت کے باقی افراد کو بھی اس دعا میں شامل قرار دیا جائے گا۔ قوت کھانے پینے کی اس محدود مقدار کو کہتے ہیں جو زندگی کو باقی اور جسمانی توانائی کو برقرار رکھے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کھانے پینے کی وہ محدود مقدار قوت کہلاتی ہے جو جان کو بچائے اور بطور رزق کافی ہو کفاف بنیادی ضروریات زندگی کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے محفوظ باز رکھے۔ نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ قوت اور کفاف کے ایک ہی معنی ہیں اور زیادہ صحیح بات بھی یہی ہے کہ دوسری روایت کا لفظ کفاف دراصل پہلی روایت کے لفظ قوت کی وضاحت ہے اور اس لفظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اسباب معیشت اور ضروریات زندگی کی کم سے کم مقدار پر اکتفا کرنا اولیٰ ہے، واضح رہے کہ حق تعالیٰ نے حضور ﷺ کی اس دعا کو اپنے ان بندوں کے حق میں قبول فرمایا جنہیں اس نے اپنا پیارا اور برگزیدہ بنانا چاہا۔ اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ کفاف یعنی خوراک کی بقدر کفایت مقدار، کوئی متعین اور آخری نہیں، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور اس فرق واختلاف کا مدار اشخ اس، زمانہ اور حالات کی عدم یکسانیت پر ہے، مثلا ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو قلیل کھانے کی عادت رکھتا ہے بایں طور کہ وہ دو تین دن یا اس سے زائد بھوکا رہ سکتا ہے، ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو دن بھر میں دو تین بار کھانے کی عادت رکھتا ہے، کوئی شخص کم یا زیادہ اہل و عیال رکھتا ہے اور کوئی شخص سرے سے عیالدار ہی نہیں ہوتا، اسی طرح بعض حالات اور بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کھانے پینے کی تھوڑی سی مقدار بھی کافی ہوجاتی ہے جیسے قحط کا زمانہ، تنگدستی کی حالت اور ضعف و کمزوری یا مرض کا لاحق ہنا، اس کے برخلاف خوشحالی وآسودگی اور قوت و توانائی کی حالت میں کھانے پینے کی زیادہ خواہش ہوتی ہے غرضیکہ کفاف کی مقدار کو منضبط نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کا دارومدار وقت و حالات و ضروریات پر ہوتا ہے کہ جو شخص جس حیثیت کا اور جس حالت میں ہوتا ہے اس کے حق میں کفاف کی مقدار اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ البتہ مستحسن اور مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے کھانے پینے کی ضروریات کو بس اسی مقدار تک محدود رکھنا چاہئے جو زندگی کی بقاء کے لئے ناگزیر اور جسمانی قوت توانائی کی برقراری کے لئے ضروری ہو کہ جس سے عبادات و طاعات پر قدرت حاص رہے اور معمولات زندگی فوت نہ ہوں۔ اس حدیث میں گویا مسلمانوں کو اس امر پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ وہ حصول معاش کی جدوجہد کی ضروریات زندگی کی اس مقدار تک محدود رکھیں جو کفاف کہلاتی ہے اور ضرورت سے زیادہ اسباب معیشت مہیا کرنے کی محنت ومشقت برداشت نہ کریں نیز حد اعتدال سے تجاوز کر کے اور حرص وہوس میں مبتلا ہو کر اپنی روحانی و اخلاقی زندگی کو مضمحل نہ کریں۔ علماء نے لکھا ہے کہ فقر اور غنا دونوں سے کفاف افضل ہے، اگرچہ بعض حالتوں میں غنا یعنی مال و دولت کی کثرت بھی ایک طرح کی فضیلت رکھتی ہے بشرطیکہ اس کثرت کی وجہ سے حاصل ہونے والی خوشحالی وآسودگی کسی بھی صورت میں دینی گمراہی، اخروی نقصان و خسران اور دنیا کی محبت وچاہ کا موجب نہ بنے بلکہ خیر و بھلائی اور عبادات و طاعات کی راہ زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے میں مددگار ہو۔
Top