مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5053
وعن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إن مما أخاف عليكم من بعدي ما يفتح عليكم من زهرة الدنيا وزينتها . فقال رجل : يا رسول الله أو يأتي الخير بالشر ؟ فسكت حتى ظننا أنه ينزل عليه قال : فمسح عنه الرحضاء وقال : أين السائل ؟ . وكأنه حمده فقال : إنه لا يأتي الخير بالشر وإن مما ينبت الربيع ما يقتل حبطا أو يلم إلا آكلة الخضر أكلت حتى امتدت خاصرتاها استقبلت الشمس فثلطت وبالت ثم عادت فأكلت . وإن هذا المال خضرة حلوة فمن أخذه بحقه ووضعه في حقه فنعم المعونة هو ومن أخذه بغير حقه كان كالذي يأكل ولا يشبع ويكون شهيدا عليه يوم القيامة . متفق عليه
مالداری بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے (صحابہ ؓ اور ان کے ذریعہ عام مسلمانوں کو مخابط کر کے) فرمایا۔ اپنی وفات کے بعد تمہارے بارے میں مجھے جن چیزوں کا خوف ہے ( کہ تم ان میں مبتلا ہوجاؤگے ( ان میں سے ایک چیز دنیا کی تروتازگی اور زینت بھی ہے (جو ملکی فتوحات و اقتدار کی صورت میں) تم کو حاصل ہوگی۔ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ﷺ، کیا بھلائی اپنے ساتھ برائی بھی لائے گی؟ (یعنی ملکی فتوحات و اقتدار کی وجہ سے ہم مسلمانوں کو جو مال غنیمت اور سازوسامان حاصل ہوگا وہ تو ہمارے حق میں اللہ کی نعمت ہوگی اور ویسے بھی جائز وسائل و ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت اور رزق وغیرہ کی وسعت وفراخی ایک اچھی چیز ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت اور ایک اچھی چیز ہمارے لئے برائی وفتنہ اور ترک طاعات کا سبب و ذریعہ بن جائے؟ ) حضور ﷺ (یہ سن کر) خاموش رہے (اور انتظار کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئے تو جواب دیں) یہاں تک کہ ہم نے محسوس کیا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ (تھوڑی دیر کے بعد) حضور ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھا (جو نزول وحی کے وقت آتا تھا) اور پھر فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے سوال کیا تھا؟ گویا آپ ﷺ نے سائل کے سوال کی تحسین فرمائی (کیونکہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ اس شخص نے جو سوال کیا ہے اور اب اس کا جو جواب دیا جائے گا اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا) اور اس کے بعد فرمایا حقیقت یہ ہے کہ بھلائی اپنے ساتھ برائی نہی لاتی (یعنی جائز ذرائع سے مال و دولت کا حاصل ہونا اور رزق میں وسعت وفراخی اور خوشحالی کا نصیب ہونا بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے اور اس کی وجہ سے کوئی برائی پیشن نہیں آتی، بلکہ اصل میں برائی کا پیش آنا ان عوارض کی وجہ سے ہوتا ہے جو دولتمندی اور خوشحالی کے وقت لاحق ہوجاتے ہیں جیسے بخل واسراف اور حد اعتدال سے تجاوز کرنا اور اس کی مثال موسم بہار ہے جو زمین کے پیٹ سے گھاس وغیرہ اگاتا ہے وہ اپنی ذات کے اعتبار سے تو اچھا اور فائدہ مند ہوتا ہے، البتہ اس سے ضرور نقصان اس وقت پہنچتا ہے جب کوئی چوپایہ اس کو ضرورت سے زائد کھائے اور بسیار خوری کے سبب ضرور ہلاکت میں مبتلا ہوجائے، چناچہ خود حضور ﷺ نے اس مثال کو یوں بیان فرمایا کہ) موسم بہار میں جو سبزہ اگاتا ہے (وہ حقیقت میں تو بھلائی و فائدہ کی چیز ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کوئی نقصان و برائی لے کر زمین کے پیٹ سے نہیں اگتا مگر) وہ جانور کو اس کا پیٹ پھلا کر مار دیتا ہے یا (اگر وہ مرتا نہیں تو) مرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے (یعنی جو جانور اس سبزہ کو کھانے میں حد سے تجاوز کرجاتا ہے وہ اس سبزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فعل یعنی زیادہ کھانے کی وجہ سے ضرور ہلاکت میں مبتلا ہوجاتا ہے) یہ کہ کھانے والے جانور نے اس سبزہ کو اس طرح کھایا کہ (جب بسیار خوری کی وجہ سے) اس کی دونوں کو کھیں پھول گئیں تو وہ سورج کے سامنے بیٹھ گیا (جیسا کہ جانور کی عادت ہوتی ہے کہ بدہضمی کی وجہ سے اس کا پیٹ پھول جاتا ہے تو وہ دھوپ میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کا پیٹ گرمی پاکر نرم ہوجاتا ہے اور اس میں جو کچھ ہوتا ہے باہر نکل جاتا ہے اور پھر (جب) پتلا گوبر اور پیشاب کر کے (اس نے اپنا پیٹ ہلکا کرلیا تو) چراگاہ کی طرف چلا گیا اور سبزہ چرنے لگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا یہ مال وزر بڑا سرسبز، تروتازہ اور نرم ودلکش ہے (کہ بظاہر آنکھوں کو بہت بھاتا ہے، طبیعت کو بہت اچھا لگتا ہے جس کی وجہ سے دل چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ حاصل ہو) لہٰذا جو شخص دنیا کے مال وزر کو حق کے ساتھ (یعنی بوقت ضرورت اور جائز وسائل و ذرائع سے) حاصل کرے اور اس کو اس کے حق میں (یعنی اس کے اچھے مصارف میں کہ خواہ واجب ہو یا مستحب) خرچ کرے تو وہ مال وزر اس کے حق میں (دین کا) بہترین مددگار ثابت ہوتا ہے اور جو شخص اس مال وزر کو حق کے بغیر یعنی ناجائز طور پر حاصل کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا رہتا ہے اور شکم سیر نہیں ہوتا اور وہ مال وزر قیامت کے دن اس کے بارے میں (اس کے اسراف اور اس کی حرص وطمع کا) گواہ ہوگا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیث کے ابتدائی جملوں کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے بارے میں مجھے خدشہ ہے کہ جب تم دنیا کے ملکوں اور شہروں کو فتح کرکے اپنے تسلط و اقتدار کا جھنڈا لہراؤ گے اور اس کے نتیجہ میں تمہیں مال و دولت کی فراوانی اور خوشحالی نصیب ہوگی تو یہ چیز تمہیں عبادت وطاعت اور نیک اعمال سے باز رکھنے کی کوشش کرے گی، نفع پہنچانے والے علوم (یعنی دینی علوم وفنون) سے لاپرواہ بنادے گی اور عجب وتکبر، گھمنڈ و غرور، شان شوکت کا اظہار اور جاہ ومال سے محت جیسی برائیاں تمہارے اندر پیدا ہوجائیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ تم آخرت کی زندگی کی فکر کرنے اور موت کے لئے تیاری کرنے کی بجائے دنیاوی امور میں پھنس کر رہ جاؤ گے۔ پھر چراگاہ کی طرف چلا گیا اور سبزہ چرنے لگا یعنی جب وہ جانور ضرورت سے زیادہ کھالیتا ہے اور بدہضمی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اپنے طریقہ سے بدہضمی کا علاج کرتا ہے اور اپنے پیٹ کو صاف کر کے دوبارہ سبزہ چرنے لگتا ہے۔ یہ مثال اس شخص کی ہے جو انسانی خمیر میں شامل حرص و خواہشات کے غلبہ کی وجہ سے بعض وقت اعتدال کی راہ سے بھٹک کر حد سے تجاوز کرجاتا ہے اور پھر ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اپنے طرز عمل سے جلد ہی رجوع کرلیتا ہے اور مسقتل طور سے بےاعتدالی و گناہ کی راہ پر قائم نہیں رہتا بلکہ آفتاب ہدایت کی روشنی اس کو راہ راست کی طرف متوجہ کردیتی ہے اور ندامت و توبہ کے ذریعہ اپنے نفس کو بےاعتدالی اور گناہ کی غلاظت سے پاک کر کے گویا اپنا علاج کرلیتا ہے۔ اس کے برخلاف پہلی قسم کی کہ جس کو وہ جانور کو اس کا پیٹ پھلا کر مار دیتا ہے کے ذریعہ بیان فرمایا اس شخص کی حالت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو نفس کی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے، گناہ و معصیت پر قائم رہتا ہے اور اسی حالت میں مرجاتا ہے، یہاں تک کہ اس کو توبہ وانابت اور رجوع و استغفار کی توفیق بھی نصیب نہیں ہو پاتی۔ ان دونوں قسموں پر غور کرنے سے ایک اور قسم سامنے آتی ہے جس کا تعلق اس شخص سے ہے جو سرے سے بےاعتدالی اور گناہ کی راہ اختیار نہیں کرتا اور نفس کی خواہشات اور ناروا تمناؤں کا اسیر نہیں ہوتا بلکہ دنیا سے بےپرواہ ہوتا ہے اور اپنی تمام تر توجہ آخرت کے مفاد کی طرف مبذول رکھتا ہے، لہٰذا پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو اصطلاحی طور پر ظالم سے موسوم کیا جاتا ہے، دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو مقتصد یعنی میانہ رو کہا جاتا ہے اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو سابق یعنی بھلائیوں کو اختیار کرنے میں سبقت لے جانے والا کہا جاتا ہے۔ پس جو شخص سابق ہوتا ہے وہ سرے سے اپنے ہاتھوں کو گناہ سے آلودہ ہی نہیں کرتا، جو شخص مقتصد ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھوں کو گناہ سے آلودہ تو کرتا ہے لیکن ان کو پھر دھو ڈالتا ہے اور جو شخص ظالم ہوتا ہے وہ ہاتھ آلودہ ہی اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ مذکورہ مثال اور اس کی مطابقت کو بیان کرنے کے بعد حضور ﷺ نے یہ مال وزر بڑا سرسبز تازہ اور نرم ودلکش ہے سے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ دنیا کے مال وزر، اس کے تئیں محبت اور اس کے مصارف کے تعلق سے انسانوں کے حالات و خیالات مختلف ہوتے ہیں کہ کچھ لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو محض ضرورت و حاجت کے بقدر ہی مال و اسباب کے حصول پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے بھی جائز و درست وسائل و ذرائع اختیار کرتے ہیں، نیز ان کے پاس جو مال و اسباب اور روپیہ پیسہ ہوتا ہے اس کو وہ اچھے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کی حرص وطمع کسی بھی حد پر قناعت نہیں کرتی، وہ نہ صرف یہ کہ ضرورت و احتیاج سے زائد مال وز حاصل کرنے کی سعی و کوشش کرتے ہیں اور اس کو جوڑنے میں لگے رہتے ہیں بلکہ اس کے حصول میں جائز و ناجائز کے درمیان کوئی تمیز نہیں کرتے، سخت سے سخت برائی کا ارتکاب کرکے اور حرام ذرائع کو اختیار کرکے دولت سمیٹتے رہتے ہیں، علاوہ ازیں ان کے پاس جو مال و دولت اور روپیہ پیسہ ہوتا ہے اس کو حقداروں پر اور ان مصارف میں خرچ نہیں کرتے جو اللہ کی خوشنودی کا باعث ہوتے ہیں اور مال و دولت کے تئیں ان کی یہ حرص وطمع ان کو اس شخص کی مانند بنادیتی ہے جو کھاتا رہتا ہے مگر غلبہ حرص کی وجہ سے کبھی شکم سیر نہیں ہوتا یا ان کی حالت اس شخص کی سی ہوجاتی ہے جو استسقاء کا مریض ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی سیراب نہیں ہوتا اور جتنا پانی پیتا ہے اسی قدر پیاس بھڑکتی ہے اور پیٹ پھولتا جاتا ہے۔ ایک عارف کی نظر میں دنیا کی مثال بڑے پایہ کے بزرگ اور عارف باللہ حضرت خواجہ عبیداللہ نقشبندی (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ دنیا سانپ کی مانند ہے، لہٰذا جو شخص اس کا منتر جانتا ہے اس کے لئے تو دنیا کو حاصل کرنا جائز ہے لیکن دوسروں کے لئے جائز نہیں جب لوگوں نے یہ سنا تو عرض کیا کہ حضرت! اس کا منتر کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا اس بات کا علم ہونا کہ اس (ادنی کے مال و دولت) کو کہاں سے اور کس طرح حاصل کر رہا ہے اور کہا خرچ کر رہا ہے
Top