مشکوٰۃ المصابیح - دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان - حدیث نمبر 5049
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر . رواه مسلم
دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے (مسلم)

تشریح
قید خانہ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی شخص قید خانہ میں بند ہو تو وہاں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے اور طرح طرح کی مشقتیں جھیلتا ہے۔ اسی طرح مومن کے لئے یہ دنیا بھی گویا ایک قید خانہ ہے جہاں اس کو محنت ومشقت اور مصائب وشدائد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، منکرات اور منہیات (ممنوع اور خلاف شرع امور) سے اپنے آپ کو بچانا پڑتا ہے۔ نفس کی آزادی اور بےراہ روی کو ختم کرنا پڑتا ہے اور طاعات و عبادات کی مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یا یہ کہ مومن اس دنیا کو ایک ایسی جگہ محسوس کرتا ہے جہاں تنگی وگھٹن ہوتی ہے اور جہاں بودوباش اختیار کرنے کو وہ پسند نہیں کرتا، چناچہ وہ ہر وقت یہی خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس تنگ و تاریک جہاں سے نکل جائے اور عالم ملکوت کی وسعتوں کو اپنی جو لانگاہ بنائے۔ اور دنیا کافر کے لئے جنت ہے کا مطلب یہ ہے کہ کافر چونکہ اپنا مقصد زندگی دنیا کا حصول سمجھتا ہے اس لئے وہ اپنی تمام تر سعی و کوشش اور اپنی تمام ترجدو جہد دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں کو حاصل کرنے میں صرف کرتا ہے اور پھر وہ دنیا کی لذات شہوات میں اس طرح مشغول ومنہمک ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے یہ دنیا ایک عشرت کدہ بن جاتی ہے جہاں سے نکلنا اس کو گوارہ نہیں ہوتا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ مومن کو آخرت میں جو اجر وثواب ملے گا اور اس کو وہاں کی جن نعمتوں اور راحتوں سے نوازا جائے گا ان کی بہ نسبت یہ دنیا اس کے حق میں گویا قید خانہ ہے اور کافر کو جس دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا اس کے مقابلہ میں یہ دنیا اس کے حق میں گویا جنت ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ مومن اس دنیا میں خواہ کتنے ہی نازونعم کے ساتھ رہے اور اس کو یہاں کی کتنی ہی آسائشیں اور راحتیں حاصل ہوں مگر وہ سب ہیچ ہیں کیوں کہ اس کو آخرت میں جو نعمتیں ملنے والی ہیں اور وہاں کی جو راحتیں اور آسائشیں اس کو حاصل ہوں گی وہ اس دنیا کی نعمتوں اور راحتوں وآسائشوں سے کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ اعلی ہوں گی، اسی طرح کافر اس دنیا میں خواہ کتنی ہی مصیبتیں اور آفتیں جھیلے اور کتنے ہی شدائد کا سامنا کرے۔ مگر آخرت میں اس کا حال اس دنیا کے حال سے بھی بدتر ہوگا۔ منقول ہے کہ ایک یہودی نے حضرت حسن ؓ کو دیکھ کر ان سے کہا کہ آپ کے نانا جان (رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ الدنیا سجن المومن وجنۃ الکافر تو ان کو یہ قول میرے اور آپ کے حال پر کس طرح صادق آتا ہے، کیونکہ تم تو گھوڑے پر سواری کرتے ہو اور بڑی راحت و آسائش کے ساتھ زندگی گزارتے ہو، جب کہ میں بیماری میں مبتلا ہوں اور طرح کی تکالیف اور فقروفاقہ میں گرفتار رہتا ہوں؟ چناچہ حضرت امام ؓ نے اس کو جو جواب دیا وہ وہی تھا جو اوپر نقل کیا گیا۔
Top