مشکوٰۃ المصابیح - دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 2267
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال استأذنت النبي صلى الله عليه و سلم في العمرة فأذن لي وقال : أشركنا يا أخي في دعائك و لا تنسنا . فقال كلمة ما يسرني أن لي بها الدنيا . رواه أبو داود والترمذي وانتهت روايته عند قوله لا تنسنا
اچھے لوگوں سے طلب دعا
حضرت عمر بن خطاب ؓ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم ﷺ سے ادائیگی عمرہ کے لئے اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے مجھے اجازت عطا فرمائی اور فرمایا کہ اے میرے چھوٹے بھائی اپنی دعا میں ہمیں شریک کرلینا اور دعا کے وقت مجھے نہ بھولنا حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایسا کلمہ ارشاد فرمایا کہ اگر اس کے بدلہ میں مجھے تمام دنیا بھی دے دی جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی۔ (ابوداؤد، امام ترمذی نے اس روایت کو لفظ ولا تنسنا پر ختم کردیا ہے)

تشریح
آنحضرت ﷺ کا ارشاد فرمودہ وہ کلمہ جس کے بدلہ میں پوری دنیا حاصل کرنا بھی حضرت عمر ؓ کے لئے باعث خوشی نہ ہوتا کیا تھا؟ اس بارے میں دو احتمال ہیں ہوسکتا ہے کہ اس کلمہ سے مراد آنحضرت ﷺ کا یہی ارشاد ہوسکتا ہے جو انہوں نے حضرت عمر ؓ سے ان کی عمرہ کے لئے روانگی کے وقت فرمایا یعنی دعا میں شریک کرنا اور دعا کے وقت نہ بھولنا۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ آپ ﷺ نے اس موقع پر کوئی اور بات ارشاد فرمائی ہوگی۔ جو حضرت عمر ؓ کے نزدیک تمام دنیا سے بھی زیادہ قیمتی اور گرانمایہ تھی او اس بات کو یہاں حدیث میں نقل نہیں کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے دعا کے لئے جو درخواست کی اس سے نہ صرف یہ کہ ذات نبوت کی طرف سے مرتبہ عبودیت اور مقام بندگی میں اپنے عجز اور اپنی مسکینی کا اظہار ہے بلکہ اس طرح امت کے لوگوں کو اس بات کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے کہ اللہ کے نیک اور عابد بندوں اور اچھے لوگوں سے دعاء خیر کی جائے چاہے وہ مرتبہ کے لحاظ سے اپنے سے کم تر ہی کیوں نہ ہو نیز اس موقع پر آپ ﷺ نے اس لطیف انداز میں گویا امت کو اس بات سے بھی آگاہ کردیا کہ اپنی دعا کو صرف اپنی ذات ہی کے لئے مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اپنی دعاؤں اور خاص طور پر ان دعاؤں میں جو مقام قبولیت پر مانگی جائیں اپنے عزیز و اقرباء اور اپنے دوستوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اور آخر میں ایک بات یہ بھی کہ اس حدیث سے حضرت عمر فاروق ؓ کی عظمت و بزرگی کا اظہار ہوتا ہے آپ ﷺ نے ان سے دعا کی درخواست کر کے گویا ان کی عظمت و بزرگی اور ان کی فضیلت کی تصدیق کی۔
Top