مشکوٰۃ المصابیح - دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 2245
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اللهم إني اتخذت عندك عهدا لن تخلفنيه فإنما أنا بشر فأي المؤمنين آذيته شتمته لعنته جلدته فاجعلها له صلاة وزكاة وقربة تقربه بها إليك يوم القيامة
آنحضرت ﷺ کی شان رحمت
حضرت ابوہریرہ ؓ روای ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بارگاہ حق میں یوں دعا کی کہ اے میرے پروردگار! میں نے تیری خدمت میں ایک درخواست پیش کی ہے تو مجھے اس کی قبولیت سے نواز اور مجھے ناامید نہ کر۔ یعنی میں امیدوار کرم ہوں کہ میری درخواست ضرور ہی منظور ہوگی اور وہ درخواست یہ ہے کہ میں ایک انسان ہوں لہٰذا جس مومن کو میں نے کوئی ایذاء پہنچائی ہو بایں طور کہ میں نے اسے برا بھلا کہا ہو میں نے اس پر لعنت کی ہو میں نے اسے مارا ہو تو ان سب چیزوں کو تو اس مومن کے حق میں رحمت کا سبب گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور اپنے قرب کا باعث بنا دے کہ تو ان چیزوں کے سبب اس کو قیامت کے دن اپنا قرب بخشے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
لفظ فانما انا بشر تمہید ہے عذر کی کہ میں بھی ایک انسان ہوں کبھی کبھی بتقاضائے بشریت کسی پر خفا بھی ہوجاتا ہوں۔ لفظ فای المومنین، اس چیز کی تفصیل اور بیان ہے جس کے لئے آپ ﷺ نے اپنے ارشاد اللہم اتخذت الخ کے ذریعہ بارگاہ حق جل شانہ میں درخواست پیش کی بہرکیف آنحضرت ﷺ کی اس دعا کا حاصل یہ ہے کہ جس مومن کو مجھ سے کوئی بھی ایذاء پہنچ جائے تو اس ایذاء کو اس کے حق میں رحمت وغیرہ کا سبب بنا دے۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ نے کسی چیز کی طلب میں بہت مبالغہ سے کام لیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کا دامن پکڑ کر کھڑی ہوگئیں آنحضرت ﷺ نے ان کے اس طرز عمل پر فرمایا کہ قطع اللہ یدک۔ اللہ تعالیٰ تیرا ہاتھ کاٹے۔ حضرت عائشہ ؓ کو یہ بات بہت محسوس ہوئی۔ وہ فورا آپ کا دامن چھوڑ کر ہٹ گئیں اور اپنے حجرہ میں آخر بہت ہی رنجیدہ ملول اور غصہ میں بھر کر بیٹھ گئیں۔ جب آنحضرت ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور حضرت عائشہ ؓ کی یہ کیفیت دیکھی تو اس وقت آپ نے ان کو خوش کرنے کے لئے یہ کہا۔ اللہم انی اتخذت عندک عہدا الخ۔ لہٰذا علماء لکھتے ہیں کہ جو شخص کسی کے لئے بد دعا کر بیٹھے تو اس کے لئے مسنون یہ ہے کہ وہ اس بد دعا کے بدلہ میں مذکورہ بالا دعا بھی ضرور کرے۔
Top