ورقہ ابن نوفل کے متعلق آنحضرت ﷺ کا خواب
اور حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں پوچھا گیا ( کہ وہ مؤمن تھے یا نہیں؟ ) اور حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے سامنے بیان کیا کہ وہ ورقہ بن نوفل آپ ﷺ کی تصدیق کرتے تھے لیکن آپ ﷺ کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مرگئے تھے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو خواب میں ورقہ بن نوفل کو اس حالت میں دکھلایا گیا ہے کہ اس پر سفید کپڑے تھے اور وہ دوزخی ہوتے تو ان کے جسم پر اور طرح کے کپڑے ہوتے۔ (الترمذی)
تشریح
ورقہ ابن نوفل ابن اسد ابن عبد العزی۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری ؓ کے چچا زاد بھائی تھے انہوں نے زمانہ جاہلیت میں عیسائی مذہب کی تعلیم حاصل کر کے اس میں کافی ورک پیدا کیا تھا اور انجیل کو عربی زبان میں منتقل کیا تھا ان کے بارے میں ثابت ہے کہ بت پرستی سے سخت بیزار تھے اور اپنے طریقے پر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے، کافی معمر تھے اور عمر کے آخری حصے میں بنیائی سے بالکل محروم ہوگئے تھے، جب آنحضرت ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ اور پہلے پہل آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو حضرت خدیجہ ؓ آپ ﷺ کو لے کر ان کے پاس گئیں انہوں نے آنحضرت ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی اور آپ ﷺ کو بشارت دی کہ آپ ﷺ وہی نبی آخر الزمان ﷺ ہیں جن کا تذکرہ آسمانی کتب میں کیا گیا ہے یہ واقعہ بہت مشہور ہے اور سیرت و تاریخ کی ہر کتاب میں موجود ہے۔ مشہور کتاب اسد الغابہ کے مصنف نے ورقہ ابن نوفل کا تذکرہ صحابہ کے زمرے میں کیا ہے اور ان کے اسلام کے بارے میں علماء کے جو اختلافی اقوال ہیں ان کو ذکر کرتے ہوئے مذکورہ بالا حدیث کو بعینہ نقل کیا ہے! حضرت خدیجہ ؓ کی حیات میں حضرت عائشہ ؓ چونکہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں نہیں تھیں اس لئے انہوں نے اس روایت کو صحابہ سے بطریق سماع نقل کیا ہوگا۔ اور حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے سامنے بیان کیا الخ یعنی جب آنحضرت ﷺ سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضرت خدیجہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کے جواب دینے سے پہلے اپنے چچا زاد بھائی کی حالت کو بیان کیا لیکن اسلوب کلام ایسا اختیار کیا کہ ورقہ ابن نوفل کی حقیقت بھی واضح ہوجائے اور مرتبہ نبوت کا ادب بھی ملحوظ رہے چناچہ انہوں نے کہا کہ وہ آپ ﷺ کی تصدیق کرتے تھے یعنی انہوں نے آپ ﷺ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس فرشتہ کو آپ ﷺ نے دیکھا ہے وہ اللہ کی طرف سے انبیاء کے پاس وحی لانے والا ہی فرشتہ ہے جو آپ پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی نازل ہوتا تھا اور آپ ﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں اور اگر میں آپ ﷺ کے ظہور و غلبہ کے وقت زندہ رہا تو آپ ﷺ کی مدد کروں گا اور آپ ﷺ کو طاقت پہنچاؤں گا۔ گویا ایک طرف تو اس بات سے حضرت خدیجہ ؓ نے ان کے ایمان کو ثابت کرنا چاہا اور دوسری طرف انہوں نے یہ بھی کہا کہ لیکن وہ آپ ﷺ کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مرگئے تھے اس سے انہوں نے ان کے ایمان کے بارے میں شک کو بھی ظاہر کردیا اور پھر اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے مذکورہ ارشاد گرامی ﷺ کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ وہ مؤمن تھے لہٰذا یہ حدیث ورقہ ابن نوفل کے ایمان پر دلالت کرتی ہے اور ظاہر بھی ہے کہ جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد آپ ﷺ کی تصدیق کی تو پھر ان کے ایمان کے سلسلہ میں اختلاف کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے۔ ہاں اگر ان کا تصدیق کرنا نبوت سے پہلے ہوتا تو بیشک اختلاف کی گنجائش تھی۔