مشکوٰۃ المصابیح - خواب کا بیان - حدیث نمبر 4515
وعن أبي موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم قال رأيت في المنام أني أهاجر من مكة إلى أرض بها نخل فذهب وهلي إلى أنها اليمامة أو هجر فإذا هي المدينة يثرب ورأيت في رؤياي هذه أني هززت سيفا فانقطع صدره فإذا هو ما أصيب من المؤمنين يوم أحد ثم هززته أخرى فعاد أحسن ما كان فإذا هو جاء الله به من الفتح واجتماع المؤمنين .
ہجرت سے متعلق آنحضرت ﷺ کا خواب
اور حضرت ابوموسی اشعری ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہجرت سے پہلے مکہ میں ایک دن میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ ہجرت کر کے ایک ایسی زمین کی طرف جا رہا ہوں جس میں کھجوروں کے درخت ہیں، چناچہ اس خواب کی تعبیر میں میرا یہ خیال ہوا کہ وہ شہر جہاں میں ہجرت کر کے جاؤں گا یمامہ ہوگا یا ہجر، لیکن حقیقت میں وہ مدینہ نکلا جس کا قدیم نام یثرب ہے میں نے اپنے اس خواب میں یہ بھی دیکھا تھا کہ میں نے اپنی تلوار کو ہلایا اور وہ اوپر سے ٹوٹ گئی، چناچہ ٹوٹنے کی تعبیر جنگ احد کے ان پریشانیوں اور مصائب کی صورت میں ظاہر ہوئی جس سے مسلمانوں کو دو چار ہونا پڑا کہ ابتداء میں مسلمانوں کو بظاہر شکست سے دوچار ہونا پڑا آنحضرت ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے، کتنے ہی مسلمان شہید ہوئے اور کتنے زخمی ہوگئے پھر میں نے خواب ہی میں تلوار کو دوسری مرتبہ ہلایا تو تلوار نہ صرف درست ہوگئی بلکہ پہلے سے بھی بہتر ہوگئی چناچہ تلوار درست ہونے کی تعبیر جنگ احد ہی کے موقع پر یا فتح مکہ اور یا صلح حدیبیہ کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی فتح اور مسلمانوں کی اجتماعیت کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ (بخاری، ومسلم)

تشریح
جزیرہ نمائے عرب (نجد وحجاز) کا وہ علاقہ ہے جو جبل طویق کے جنوب مشرق میں پھیلا ہوا ہے اور اب نجد کے علاقے میں شامل ہے یمامہ کہا جاتا ہے یہ بڑا سرسبز و شاداب علاقہ تھا اور اس میں کھجور کی بڑی پیداوار تھی موجود زمانہ میں یمامہ ایک چھوٹی سی بستی کی صورت میں سعودی عرب کے دارالسلطنت ریاض اور الالم کے درمیان پایا جاتا ہے ہجر بھی یمامہ سے متصل مشرق میں ایک بستی تھی یہاں بھی کھجور بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں مدینہ کا نام یثرب تھا، جب آنحضرت ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر یہاں تشریف لائے تو اس کا نام مدینہ، طابہ اور طیبہ رکھا گیا، لیکن زیادہ مشہور مدینہ ہی ہوا! آنحضرت ﷺ نے اس شہر مقدس کو یثرب کہنے سے منع فرمایا دیا تھا، کیونکہ یثرب اصل میں ثرب بالتحریک سے مشتق ہے جس کے معنی فتنہ و فساد کے ہیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں یا بعض دوسری احادیث میں اس شہر کے لئے اس کا قدیم نام یثرب کیوں استعمال فرمایا تو اس کی وجہ تو یہ ہے کہ یہ احادیث مذکورہ ممانعت سے پہلے کی ہیں یا یہ ممانعت چونکہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے اس لئے آپ ﷺ بیان جواز کی خاطر کبھی کبھی قدیم نام کو بھی استعمال فرما لیتے تھے اور یا یہ کہ ابتداء ہجرت میں چونکہ عام طور پر لوگ اس نئے نام یثرب کا بھی ذکر فرما دیا اور یہی آخری احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے نیز قرآن کریم میں جو فرمایا گیا ہے کہ آیت (یا اہل یثرب لامقام لکم) الخ یہ تو یہ منافقین کی زبانی فرمایا گیا ہے اس لئے اس کے بارے میں کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے۔
Top