مشکوٰۃ المصابیح - خرید و فروخت کے مسائل و احکام - حدیث نمبر 2837
وعن عائشة قالت : كان لأبي بكر رضي الله عنه غلام يخرج له الخراج فكان أبو بكر يأكل من خراجه فجاء يوما بشيء فأكل منه أبو بكر فقال له الغلام : تدري ما هذا ؟ فقال أبو بكر : وما هو ؟ قال : كنت تكهنت لإنسان في الجاهلية وما أحسن الكهانة إلا أني خدعته فلقيني فأعطاني بذلك فهذا الذي أكلت منه قالت : فأدخل أبو بكر يده فقاء كل شيء في بطنه . رواه البخاري
حضرت ابوبکر کا وصف احتیاط وتقوی
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق کے پاس ایک غلام تھا جو اپنی کمائی میں سے ایک مقررہ حصہ حضرت ابوبکر کو دیا کرتا تھا (جیسا کہ اہل عرب کا معمول تھا کہ وہ اپنے غلاموں کو کمائی پر لگا دیتے تھے اور ان کو حاصل ہونیوالی اجرت میں سے کوئی حصہ اپنے لئے مقرر کرلیتے تھے) چناچہ حضرت ابوبکر اس غلام کی لائی ہوئی چیز کو کھالیا کرتے تھے ایک مرتبہ وہ غلام کوئی چیز لایا جس میں سے حضرت ابوبکر نے بھی کھایا ان کے کھانے کے بعد غلام نے کہا کہ آپ جانتے بھی ہیں یہ کیسی چیز ہے حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ مجھے کیا معلوم تم ہی بتاؤ یہ کیسی چیز ہے غلام نے کہا کہ میں ایام جاہلیت میں (یعنی اپنی حالت کفر میں) ایک شخص کو غیب کی باتیں بتایا کرتا تھا حالانکہ میں کہانت کا فن (یعنی پوشیدہ باتیں بتانے کا فن) اچھی طرح نہیں جانتا تھا بلکہ میں اس کو (غلط سلط باتیں بنا کر) فریب دیا کرتا تھا (اتفاقا آج) اس شخص سے میری ملاقات ہوگئی تو اس نے مجھے یہ چیز دی یہ وہی چیز ہے جو آپ نے کھائی ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر نے اپنے منہ (یعنی حلق) میں ہاتھ ڈال کر قے کردی اور جو کچھ پیٹ میں تھا (ازراہ احتیاط) سب باہر نکال دیا (بخاری)

تشریح
یہ حدیث حضرت ابوبکر صدیق کی دینی احتیاط اور ان کے کمال تقوی کی واضح مثال ہے کہ انہیں جیسے ہی معلوم ہوا کہ ان کے پیٹ میں ایک چیز ایسی چلی گئی ہے جو ایک حرام سلسلے میں حاصل ہوئی تھی انہوں نے فوارا قے کر کے اسے باہر نکال دیا بلکہ وہ چیز چونکہ کہانت اور اس کے ساتھ ہی فریب کی آمیزش کی وجہ سے بڑی شدید حرمت کی حامل تھی اس لئے انہوں نے قے کر کے صرف اسی چیز کو نکال دینے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ہر اس چیز کو نکالنا ضروری سمجھا جو پیٹ کے اندر اس کے علاوہ تھی کیونکہ انہیں خوف تھا کہ اس چیز کے کسی بھی جزء نے پیٹ میں دوسری چیزوں کو بھی ملوث کردیا ہوگا۔ حضرت ابوبکر کے اس فعل سے حضرت امام شافعی نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی حرام چیز کھالی ہو اور وہ اس نے اس کی حرمت کے علم کے باوجود کھائی یا لاعلمی میں کھائی ہو اور بعد میں اسے معلوم ہوا کہ وہ حرام چیز تھی تو اس پر لازم ہے کہ فورا قے کر کے اس چیز کو پیٹ سے نکال دے۔ حضرت امام غزالی نے منہاج العابدین میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر کا یہ فعل ورع یعنی تقوی و پرہیزگاری کی قسم سے ہے نیز انہوں نے لکھا ہے کہ ورع کا حکم یہ ہے کہ تم کسی سے کوئی چیز اس وقت تک نہ لو جب تک کہ اس کے بارے میں پوری تحقیق نہ کرلو پھر تحقیق کے بعد یہ یقین بھی حاصل کرلو کہ اس چیز میں کسی بھی درجے کا کوئی اشتباہ نہیں ہے اگر اس چیز کے بارے میں پوری تحقیق اور یہ یقین حاصل نہ ہو سکے تو اس چیز کو نہ لو اور اگر لے لی ہو تو اسے واپس کردو۔
Top