مشکوٰۃ المصابیح - خرید و فروخت کے مسائل و احکام - حدیث نمبر 2827
وعن عطية السعدي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يبلغ العبد أن يكون من المتقين حتى يدع ما لا بأس به حذرا لما به بأس . رواه الترمذي وابن ماجه
کامل پرہیزگاری کا درجہ
اور حضرت عطیہ سعدی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا بندہ اس وقت تک کامل پرہیزگاروں کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں کوئی قباحت نہیں ہے تاکہ اس طرح وہ ان چیزوں سے بچ سکے جن میں قباحت ہے (ترمذی ابن ماجہ)

تشریح
شرعی نقطہ نظر سے متقی یعنی پرہیزگار وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو ان چیزوں سے دور رکھے جنہیں اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کا سبب ہو۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ تقوی یعنی پرہیزگاری کے تین درجے ہیں۔ اول شرک سے اجتنا ب چنانچہ جو بندہ شرک سے بچتا ہے وہ دائمی عذاب سے نجات پاتا ہے اس آیت کریمہ (وَاَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى) 48۔ الفتح 26) ( اور اللہ نے ان مؤمنوں کو پرہیزگاری کی بات (یعنی توحید پر قائم کیا) میں یہی درجہ مراد ہے۔ دوم ہر گناہ یہاں تک کہ صغیرہ گناہوں سے بھی اجتناب۔ چناچہ بعض علماء کے نزدیک تقوی کی جو مشہور شرعی اصطلاح ہے اس کا اطلاق اسی درجہ پر ہوتا ہے اور اس آیت کریمہ (وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰ ي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا) 7۔ الاعراف 96) (اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور پرہیزگار ہوجاتے) میں بھی یہی درجہ مراد ہے۔ سوم ہر چیز میں پوری احتیاط ملحوظ رکھنا یہاں تک کہ بعض مباح چیزوں کو بھی احتیاط اور مصلحت کے پیش نظر ترک کردینا اپنا دل غیر اللہ میں نہ لگانا اور غیر اللہ سے اپنا دھیان ہٹا کر صرف اسی کی طرف متوجہ رکھنا چناچہ اس آیت کریمہ (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھ) 3۔ آل عمران 102) (اے مؤمنو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے) میں تقوی کے یہی معنی مراد ہیں اور مذکورہ بالا حدیث میں بھی تقوی یعنی پرہیزگاری کا یہی کامل درجہ مراد ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک پورا متقی و پرہیزگار نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اس خوف کی وجہ سے مباح چیزیں بھی نہیں چھوڑ دیتا کہ مبادا یہ مباح چیز کسی حرام یا مکروہ یا مشتبہ چیز تک پہنچنے کا ذریعہ بن جائے مثلا اگر وہ شادی شدہ نہ ہو تو شہوت کا غلبہ بھی زیادہ ہوتا ہے اسی طرح خوشبو وغیرہ نہ لگائے اور نہ کوئی ایسی مباح چیز استعمال کرے جس سے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہو بہرکیف حرام مکروہ اور مشتبہ چیزوں سے اجتناب کے بعد احتیاط کے پیش نظر بعض مباح چیزوں سے بھی بچنا تقوی و پرہیزگاری کا کامل ترین درجہ ہے چناچہ حضرت عمر فاروق ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ حرام میں مبتلا ہوجانے کے خوف سے دس حلال حصوں میں سے نو حصے چھوڑ دیتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں منقول ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ حرام میں مبتلا ہوجانے کے خوف سے از قسم مباح ستر حصے ترک کردیتے تھے۔
Top