مشکوٰۃ المصابیح - خرید و فروخت کے مسائل و احکام - حدیث نمبر 2826
وعن وابصة بن معبد أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : يا وابصة جئت تسأل عن البر والإثم ؟ قلت : نعم قال : فجمع أصابعه فضرب صدره وقال : استفت نفسك استفت قلبك ثلاثا البر ما أطمأنت إليه النفس واطمأن إليه القلب والإثم ما حاك في النفس وتردد في الصدر وإن أفتاك الناس . رواه أحمد والدارمي
اچھائی اور برائی کی پہچان
اور حضرت وابصہ ابن معبد کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا وابصہ تم یہی پوچھنے آئے ہو ناں کہ نیکی کیا ہے اور گناہ کیا ہے میں نے عرض کیا کہ جی ہاں ان کا بیان ہے کہ یہ سن کر آپ نے اپنی انگلیوں کو اکٹھا کیا اور میرے سینے پر مار کر فرمایا کہ اپنے آپ سے دریافت کرو اپنے دل سے دریافت کرو آپ ﷺ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے اور پھر فرمایا کہ نیکی وہ ہے جس سے انسان خود مطمئن ہوجائے اور جس سے اس کے دل کو سکون حاصل ہوجائے اور گناہ وہ ہے جس سے انسان کا وجود خلش محسوس کرے اور جس سے اس کے دل و سینہ میں شک و تردد پیدا ہوجائے اگرچہ لوگ اسے صحیح کہیں (احمد، دارمی)

تشریح
اس ارشاد گرامی میں نیکی وبدی اور اچھائی و برائی کو پہچاننے کی ایک ایسی واضح علامت بتائی گئی ہے جسے ہر صالح انسان اپنے ہر قول و فعل کی کسوٹی بنا سکتا ہے جس قول اور جس عمل پر اپنا جی مطمئن ہوجائے اور دل سکون محسوس کرے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ قول یا عمل نیک اور اچھا ہے اور جس قول یا عمل پر طبیعت میں خلش وچبھن اور دل میں شک وتردد کی کسک پیدا ہوجائے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ قول یا فعل غلط اور برا ہے چناچہ حدیث کا حاصل یہی ہے کہ ہر قول وفعل کے بارے میں خود اپنے ضمیر کی راہنمائی حاصل کرو جس چیز سے خاطر جمعی حاصل ہو اور دل میں یہ خلجان نہ ہو کہ یہ بری ہے سمجھو کہ وہی نیکی ہے اور جس چیز سے خاطر جمعی حاصل نہ ہو اور دل میں تردد وخلجان پیدا ہوجائے سمجھو کہ وہی گناہ ہے اگرچہ لوگ اس چیز کے بارے میں یہی کیوں نہ کہیں کہ یہ صحیح اور اچھی ہے اور کوئی مفتی اس کے صحیح ہونے کا فتوی ہی کیوں نہ دیدے لہذا ان کے کہنے پر عمل نہ کرو۔ مثلا اگر کسی شخص کے بارے میں تمہیں یہ معلوم ہو کہ اس کے پاس حلال مال بھی ہے اور حرام مال بھی اور وہ شخص تمہیں اپنے مال میں سے کچھ دینا چاہتا ہے تو اگر تمہارا دل اس پر مطمئن ہو کہ وہ تمہیں جو مال دے رہا ہے وہ وہی مال ہے جو اس نے صرف حلال ذرائع سے کمایا ہے تو تم لے لو اور اگر تمہارا دل مطمئن نہ ہو اور تمہیں یہ خوف ہو کہ کہیں یہ وہ مال نہ ہو جو اس نے حرام ذرائع سے کمایا ہے تو تم اس سے ہرگز کچھ نہ لو اگرچہ وہ خود یہ کہے کہ میں تمہیں اپنے حلال میں سے دے رہا ہوں اور کوئی مفتی یہ فتوے بھی دے رہا ہو کہ تمہارے لئے یہ مال لینا جائز ہے کیونکہ فتوی اور چیز ہے اور تقوی اور چیز ہے تقوی پر عمل کرنا فتوی پر عمل کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ گزشتہ حدیث کی تشریح میں بھی یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ ضمیر کی صحیح راہنمائی کا جوہر ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتا اور اب اس موقع پر بھی جان لیجئے کہ حدیث میں اپنے دل سے دریافت کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا تعلق ان صالح لوگوں سے ہے جن کے دل خواہشات نفسانی کی کدورت سے صاف اور تقوی و خدا ترسی کے جوہر سے معمور ہوتے ہیں کیو کہ ان کے طبائع اور ان کے قلوب صرف خیروبھلائی کی طرف مائل اور برائی سے بیزار رہتے ہیں جبکہ برے لوگ نفسانی خواہشات میں گرفتار رہتے ہیں اور نیکی و بھلائی سے بےاعتنائی اختیار کئے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں انہیں ضمیر کی صحیح راہنمائی حاصل نہیں ہوسکتی نیز یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ اپنے دل سے دریافت کرنے کا یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ کسی چیز کے بارے میں کوئی واضح شرعی فیصلہ سامنے نہ ہو چناچہ جب کسی چیز کے حکم کے بارے میں قرآن کی آیتوں میں تعارض نظر آئے تو واجب ہے کہ حدیث کی طرف رجوع کیا جائے حدیث جس آیت کے مطابق فیصلہ کرے اسی آیت پر عمل کیا جائے اگر حدیثوں میں بھی تعارض ہو تو پھر علماء کے اقوال کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اور اگر علماء کے اقوال میں بھی تعارض ہو تو پھر اس کے بعد اپنے دل کی راہنمائی حاصل کرے اور ان اقوال میں سے اس قول کے مطابق عمل کرے جس کو اپنا دل صحیح و راجح تسلیم کرے اور اس پر مطمئن ہوجائے۔ آخر میں یہ بتادینا ضروری ہے کہ جب حضرت وابصہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی حاضری کا مقصد خود بیان نہیں کیا تھا بلکہ یہ اعجاز نبوت تھا کہ آنحضرت ﷺ نے ازخود ازراہ مکاشفہ ان کے دل کی بات بیان فرما دی نیز آنحضرت ﷺ نے اپنی انگلیاں اٹھا کر ان کے سینہ پر اس لئے ماریں تاکہ آپ کے مبارک ہاتھوں کی برکت کی وجہ سے ان کو آپ کے کلام کی پوری سمجھ حاصل ہوجائے دوسرے ان کے دل کی طرف اشارہ کرنا بھی مقصود تھا کہ دل یہاں ہے اس سے دریافت کرلو۔
Top