مشکوٰۃ المصابیح - خرید و فروخت کے مسائل و احکام - حدیث نمبر 2814
وعن النعمان بن بشير قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الحلال بين والحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهاب استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه ألا وإن لكل ملك حمى ألا وإن حمى الله محارمه ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهي القلب
مشتبہ چیزوں سے بھی اجتناب کرنا چاہئے
اور حضرت نعمان ابن بشیر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حلال ظاہر ہے حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے لہذا جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیز کیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک و محفوظ کرلیا ( یعنی مشتبہ چیزوں سے بچنے والے کے نہ تو دین میں کسی خرابی کا خوف رہیگا اور نہ کوئی اس پر طعن وتشنیع کرے گا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا اور اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں گھس کر چرنے لگیں۔ جان لو ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ حرام چیزوں ہیں اور اس بات کو بھی ملحوظ رکھو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست حالت میں رہتا ہے یعنی جب وہ ایمان و عرفان اور یقین کے نور سے منور رہتا ہے تو اعمال خیر اور حسن اخلاق و احوال کی وجہ سے پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکڑے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے یاد رکھو گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے (بخاری ومسلم)

تشریح
حلال ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کو معلوم ہے نیک کلام اچھی باتیں وہ مباح چیزیں ہیں جن کو کرنا یا جن کی طرف دیکھنا درست ہے شادی بیاہ کرنا اور چلنا پھرنا وغیرہ وغیرہ اسی طرح حرام ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا نص کے ذریعہ بالکل واضح طور پر معلوم ہوگیا ہے جیسے شراب خنزیر مردار جانور٫ جاری خون زنا سود جھوٹ غیبت چغل خوری امرد اور اجنبی عورت کی طرف بہ نظربد دیکھنا وغیرہ وغیرہ ایسے ہی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کی حرمت یا حلت کے بارے میں دلائل کے تعارض کی بناء پر کوئی واضح حکم معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ حرام ہیں یا حلال ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں کے بارے میں دونوں طرف کی دلیلوں میں سے کسی ایک طرف کی دلیل کو اپنی قوت اجتہاد اور بصیرت فکر ونظر کے ذریعہ راجح قرار دے کر کوئی واضح فیصلہ کرلیتے ہیں۔ بہرکیف مشتبہ چیز کے بارے میں علماء کے تین قول ہیں۔ -1 ایسی چیز کو نہ حلال سمجھا جائے نہ حرام اور نہ مباح یہی قول سب سے زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ -2 ایسی چیز کو حرام سمجھا جائے -3 ایسی چیز کو مباح سمجھا جائے اب ان تینوں اقول کو ذہن میں رکھ کر مشتبہ کو بطور مثال اس طرح سمجھئے کہ مثلًا ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا ایک دوسری عورت نے آ کر کہا کہ میں نے ان دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے اس صورت میں وہ منکوحہ عورت اس شخص کے حق میں مشتبہ ہوگئی کیونکہ ایک طرف تو عورت کا بیان ہے کہ میں نے چونکہ ان دونوں کو دودھ پلایا ہے اس لئے یہ دونوں رضاعی بہن بھئی ہوئے اور ظاہر ہے کہ رضاعی بھائی بہن کے درمیان نکاح درست نہیں ہوتا لہذا اس دلیل کا تو یہ تقاضا ہے کہ اس نکاح کو قطعًا ناجائز کہا جائے مگر دوسری طرف نکاح کے جائز رہنے کی یہ دلیل ہے کہ صرف یہ ایک عورت کی بات ہے جس پر کوئی شرعی گواہی نہیں ہے اس پر کیسے یقین کرلیا جائے کہ یہ عورت صحیح ہی کہہ رہی ہے ہوسکتا ہے کہ یہ محض بدنیتی کی وجہ سے یہ بات کہ کر ان دونوں کے درمیان افتراق کرانا چاہتی ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ نکاح جائز اور درست ہے دلائل کے اس تعارض کی وجہ سے لا محالہ یہی حکم ہوگا کہ یہ ایک مشتبہ مسئلہ ہوگیا ہے اس لئے اس شخص کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ وہ اس عورت کو اپنے نکاح میں نہ رکھے کیونکہ مشتبہ چیز سے اجتناب ہی اولی ہے مشتبہ چیز کی دوسری مثال یہ ہے کہ مثلا ایک شخص کے پاس کچھ روپے ہیں جن میں سے کچھ تو جائز آمدنی کے ہیں اور کچھ ناجائز آمدنی کے اس صورت میں وہ سب روپے اس شخص کے حق میں مشتبہ ہیں لہذا اس کو ان روپیوں سے اجتناب و پرہیز کرنا چاہئے۔ ارشاد گرامی میں حرام چیزوں کو ممنوعہ چراگاہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کوئی حاکم کسی خاص چراگاہ کو دوسروں کے لئے منوع قرار دے دیتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو اس ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھیں اسی طرح جو چیزیں شریعت نے حرام قرار دی ہیں وہ لوگوں کے لئے ممنوع ہیں کہ ان کے ارتکاب سے اجتناب و پرہیز واجب و ضروری ہے اور مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ (منڈیر) پر عام جانور چرانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح چرواہے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھ کر چرائے تاکہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں نہ گھس جائیں اور اگر وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چرائے گا تو پھر اس بات کا ہر وقت احتمال رہے گا کہ اس کے جانور ممنوعہ چراگاہ میں گھس جائیں جس کے نتیجہ میں اسے مجرم قرار دے دیا جائے گا اسی طرح انسان کو چاہئے کہ وہ مشتبہ چیزوں سے دور رہے تاکہ محرمات حارم چیزوں میں مبتلا نہ ہوجائے اس کے بعد آپ نے مذکورہ بالا تشبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ایسا ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے جس میں جانور چرانا جرم سمجھا جاتا ہے (یہ گویا زمانہ جاہلیت کے بادشاہوں اور حکام کے بارے میں خبر دی ہے یا یہ کہ مسلمانوں میں سے ان بادشاہوں اور حکام کے بارے میں خبر دی ہے جو غیر عادل ہیں کیونکہ کسی علاقہ کی گھاس کو جانوروں کے چرنے سے روک کو ممنوعہ چراگاہ قرار دینا درست نہیں ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے لہذا جو کوئی اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہوگا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کرے گا اسے مستوجب عذاب قرار دیا جائے گا اور پھر ان حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہوگی جیسے شرک اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چاہے ان کے مرتکب کو بخشے چاہے نہ بخشے البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔ حضرت شیخ علی متقی نے اس موقع پر یہ ترتیب ضروری مباح مکروہ حرام کفر قائم کر کے لکھا ہے کہ جب بندہ اپنی معاشی تمدنی اور سماجی زندگی کے تمام گوشوں میں اس قدر ضرورت پر اکتفاء کرلیتا ہے جس سے اس کا وجود اور اس کی عزت باقی رہے تو وہ اپنے دین میں ہر خطرہ سے سلامت رہتا ہے مگر جب حد ضرورت سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو حد مکروہات میں داخل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ حرص وہوس حد مکروہات سے نکال کر محرمات کی مد میں داخل کردیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کفر میں پہنچ جاتا ہے نعوذ باللہ من ذلک۔ حدیث کے آخر میں انسانی جسم میں گوشت کے اس ٹکڑے کی اہمیت بیان کی گئی ہے جسے دل کہا جاتا ہے چناچہ فرمایا کہ جب وہ ٹکڑا بگڑ جاتا ہے یعنی انکار شک اور کفر کی وجہ سے اس پر ظلمت طاری ہوجاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ارتکاب گناہ و مصیبت کی وجہ سے پورا جسم بگڑ جاتا ہے لہذا ہر عاقل وبالغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کی طرف متوجہ رہے اور اس کو خواہشات نفسانی میں منہمک ہونے سے روکے تاکہ وہ آگے بڑھ کر مشتبہ چیزوں کی حد میں داخل نہ ہوجائے کیونکہ جب دل خواہشات نفسانی کی طرف چل پڑتا ہے تو پھر اللہ کی پناہ وہ تمام حدوں کو پھلانگتا ہوا ظلمت کی آخری حدوں تک پہنچ جاتا ہے۔ آخر میں یہ سمجھ لیجئے کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بدن کی بھلائی و بہتری حلال غذا پر موقوف ہے کیونکہ حلال غذا سے دل کو صفائی حاصل ہوتی ہے اور دل کی صفائی ہی سے تمام بدن اچھی حالت میں رہتا ہے بایں طور کہ اس کے ایک ایک عضو سے اچھے اعمال ہی صادر ہوتے ہیں اور تمام اعضاء کا برائی کی طرف میلان ختم ہوجاتا ہے۔ اور اب ایک بات یہ جان لیجئے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث علم و مسائل کے بڑے وسیع خزانے کی حامل ہے نیز جن حدیثوں پر اسلامی شرائع و احکام کا مدار ہے وہ تین ہیں ایک تو حدیث (انما الاعمال بالنیات) دوسری حدیث (من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ) اور تیسری ہی ہے حدیث (الحلال بین) الخ۔
Top