مشکوٰۃ المصابیح - خرید و فروخت کے مسائل و احکام - حدیث نمبر 2811
کسب اور طلب حلال کا بیان
کسب اور طلب حلال کا مطلب ہے اپنی معاشی ضروریات مثلا روٹی کپڑے وغیرہ کے حصول کے لئے کمانا اور پاک روزی و حلال پیشہ کو بہرصورت اختیار کرنا چناچہ اس باب میں کسب معاش کی فضیلت ذکر کی گئی ہے اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ کون سا کسب اور کون سا پیشہ اچھا ہے اور کون سا برا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ سب سے بہتر کسب وپیشہ جہاد ہے اس کے بعد تجارت٫ پھر زراعت اور پھر دستکاری یعنی کتابت وغیرہ۔ کسب یعنی کمانا فرض بھی ہے اور مستحب بھی اسی طرح مباح بھی ہے اور حرام بھی چناچہ اتنا کمانا فرض ہے جو کمانے والے اور اس کے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کے لئے اور اگر اس کے ذمہ قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے لئے کافی ہوجائے اس سے زیادہ کمانا مستحب ہے بشرطیکہ اس نیت کے ساتھ زیادہ کمائے کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات سے جو کچھ بچے گا وہ فقراء و مساکین اور اپنے دوسرے مستحق اقرباء پر خرچ کروں گا اسی طرح ضروریات زندگی سے زیادہ کمانا اس صورت میں مباح ہے جب کہ نیت اپنی شان و شوکت اور اپنے وقار و تمکنت کی حفاظت ہو البتہ محض مال و دولت جمع کر کے فخر وتکبر کے اظہار کے لئے زیادہ حرام ہے اگرچہ حلال ذرائع ہی سے کیوں نہ کمایا جائے۔ کمانے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی کمائی کو اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر اس طرح خرچ کرے کہ نہ تو اسراف میں مبتلا ہو اور نہ بخل وتنگی کرے۔ جو شخص کمانے اور اپنی روزی خود فراہم کرنے پر قادر ہو اس پر لازم ہے کہ وہ کمائے اور جس طرح بھی ہو سکے حلال ذرائع سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ابرومندانہ زندگی کے تحفظ کے لئے معاشی ضروریات خود فراہم کر کے دوسروں پر بار نہ بنے ہاں جو شخص کسی بھی مجبوری اور عذر کی وجہ سے کسب و کمائی پر قادر نہ ہو تو پھر اس کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ دوسروں سے سوال کر کے اپنی زندگی کی حفاظت کرے اگر اس صورت میں کوئی شخص محض اس وجہ سے کہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا اس کی غیرت کو گوارا نہیں اس نے کسی سے سوال نہیں کیا یہاں تک کہ بھولو افلاس نے اس کی زندگی کے چراغ کو گل کردیا تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی موت کا خود ذمہ دار ہوگا بلکہ ایک گنہگار کی موت مرے گا۔ نیز جو شخص خود کما کر اپنا پیٹ بھرنے سے عاجز ہو تو اس کا حال جاننے والے پر یہ فرض ہے کہ وہ اس کی سفارش کرے جو اس کی مدد کرنے پر قادر ہو حضرت مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی نے اس آیت کریمہ (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ) 2۔ البقرۃ 172) (اے مؤمنو تم صرف وہی پاک و حلال رزق کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے) کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ سب سے بہتر کسب جہاد ہے بشرطیکہ جہاد کے ارادے کے وقت مال غنیمت کے حصول کا خیال دل میں قطعًا نہ ہو بلکہ نیت میں اخلاص ہو اس کے بعد تجارت کا درجہ ہے خاص طور پر وہ تجارت جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں یا ایک شہر سے دوسرے شہر میں مسلمانوں کی ضروریات خاص کی چیزوں کو لانے لے جانے کا ذریعہ ہو اس قسم کی تجارت کرنے والا شخص اگر حصول منفعت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی خدمت اور ان کی حاجت روائی کی نیت بھی رکھے تو اس کی تجارت عبادت کی بھی ایک صورت بن جائے گی۔ تجارت کے بعد زراعت کا درجہ ہے زراعت کا پیشہ بھی دنیاوی منفعت کے علاوہ اجروثواب کا ایک بڑا ذریعہ بنا جاتا ہے جب کہ اس میں مخلوق اللہ یعنی انسانوں اور جانوروں کی غذائی ضروریات کی فراہمی کی نیت خیر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت یعنی بارش وہوا وغیرہ پر توکل اور اعتماد ہو ان تینوں پیشوں کے علاوہ اور پیشے آپس میں کوئی فضیلت نہیں رکھتے البتہ کتابت کا پیشہ بہتر درجہ ضرور رکھتا ہے کیونکہ اس پیشے میں نہ صرف یہ کہ علم کی خدمت ہوتی ہے بلکہ دینی علوم٫ شرعی احکام انبیاء اور بزرگوں کے احوال بھی یاد ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ بالا پیشوں کے بعد ان پیشوں کا درجہ آتا ہے جو بقاء عالم اور معاشرت و تمدن کی اصل ضروریات کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں مثلا معماری٫ بیلداری٫ خشت سازی٫ چونا بنانا گھی اور تیل نکالنا روئی بیچنا سوت کا تنا کپڑے سینا اور آٹا پیسنا وغیرہ یہ تمام کسب اور پیشے ان پیشوں سے بہتر ہیں جو محض تکلف وتزئین اور اظہار امارت و دولت کے کام آتے ہیں جیسے زردوزی ونقاشی مٹھائی بنانا عطر بنانا بیچنا اور رنگریزی وغیرہ تاہم یہ پیشے بھی اگر حسب موقع ہوں بایں طور کہ ان کی وجہ سے خلاف شرع امور کا ارتکاب نہ ہوتا ہو تو ان میں بھی کچھ کراہیت نہیں ہے۔ بخلاف ان پیشوں کے جن میں آلودگی نجاست مخلوق اللہ کی بد خواہی گناہوں کے ارتکاب میں اعانت دین فروشی کذب وجہل سازی اور فریب ودغا کا دخل رہتا ہو جیسے شاخ کشی جاروب کشی دباغی احتکار غلہ حمالی مردہ شوئی کفن فروشی کٹنائی ناچنا گانا نقالی جرہ بازی (پہلے زمانے میں ایک مستقل پیشہ تھا کہ کچھ چہل باز شارع عام پر ایک شخص کو کھڑا کردیتے جو راہ چلتے آدمی کو کوکھ میں اس طرح ٹھوکا مار دیتا کہ اسے یہ پتہ نہ چلتا کہ یہ کس کی حرکت ہے چناچہ جب وہ اس پر حیران و پریشان ہوتا تو سب چہل باز اس پر قہق ہے لگاتے اس کو جرہ بازی کہتے تھے) نقالی دلالی اور وکالت (جس میں جھوٹ فریب سے کام لیا جاتا ہو) امام اذان اور خدمت مسجد کی اجرت اور قرآن کی تلاوت وتعلیم کا معاوضہ لینا وغیرہ یہ سب پیشے مکروہ ہیں (شاہ عبد العزیز ) مغنی الطالب میں لکھا ہے کہ کسب اور کسب کرنے والے کی فضیلت احادیث میں بہت منقول ہے اسی طرح جو شخص کسب پر قادر ہونے کے باوجود ازراہ کسل وسستی کسب نہ کرے بلکہ اپنی گزر اوقات کے لئے دوسروں سے مانگتا پھرے اس کے حق میں بڑی وعید بیان کی گئی ہے لیکن جو شخص اللہ کی رزاقی پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہوئے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے اور نہ ہی اپنی دینی مصروفیات اور عبادت و اذکار میں خلل پڑنے کی وجہ سے کسب وغیرہ کرے تو اس وعید میں داخل نہیں بشرطیکہ اپنی امداد کے لئے دوسرے لوگوں کی طرف نہ تو اس کا دل متوجہ ہو اور نہ وہ کسی سے اپنی امداد واعانت کی توقع رکھتا ہو کیونکہ اسے سوال دلی کہتے ہیں جو سوال زبانی سے کہیں بدتر چیز ہے۔ جو شخص اتنا مال زر رکھتا ہو جو اس کی معاشی ضروریات کے لئے کافی ہو یا اوقات وغیرہ اسے بقدر ضروریات روپیہ پیسہ مل جاتا ہو (مطلب یہ کہ گھر بیٹھے اسے کسی بھی جائز وسیلے سے بقدر ضروریات آمدنی ہوجاتی ہو) تو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ عبادت وغیرہ میں مشغول رہے اپنے اوقات کسی کسب وغیرہ میں صرف نہ کرے٫ اسی طرح دینی علوم کی تعلیم دینے والے مفتی٫ قاضی اور اسی زمرہ کے دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہی حکم ہے اگر یہ لوگ بقدر کفایت ضروریات آمدنی رکھتے ہوں تو ان کو اپنے امور ہی میں مصروف رہنا چاہئے کسب وغیرہ میں مصروف نہ ہوں۔ جو شخص کسی کسب مثلا تجارت وغیرہ کا پیشہ اختیار کرے تو اس پر فرض ہے کہ وہ صرف حلال اور جائز مال کمائے حرام سے کلیۃً اجتناب کرے اور اپنے پیشے وہنر میں احکام شرعی کی رعایت بہرصورت ملحوظ رکھے نیز اپنے پیشہ میں تمام تر محنت وجدوجہد کے باوجود اللہ کی ذات پر توکل و اعتماد رکھے کہ رزاق مطلق صرف اللہ تعالیٰ اور کسب محض ایک ظاہری وسیلہ کے درجہ کی چیز ہے اپنے پیشے وکسب کو رزاق ہرگز نہ سمجھے کیونکہ یہ شرک خفی ہے۔ حرام کسب کے ذریعے حاصل ہونے والے مال و زر سے مکمل پرہیز کرے کیونکہ اس کے بارے میں سرکار دو عالم ﷺ کی یہ وعید منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص حرام مال سے صدقہ و خیرات کرتا ہے تو اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور مال حرام اپنے پیچھے یعنی مالک کی موت کے بعد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتا کہ وہ اپنے مالک کے لئے ایسا برا زاد راہ بن جاتا ہے جو اسے یعنی مالک کو دوزخ کی آگ میں پہنچا دیتا ہے۔ بعض لوگ حرام مال کی بڑی تعداد سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن قلیل مقدار میں احتیاط نہیں کرتے حالانکہ حرام مال کی قلیل ترین مقدار سے بھی اسی طرح اجتناب کرنا چاہئے جس طرح بڑی سے بڑی مقدار سے اجتناب ضروری ہے اس بارے میں یہ احساس ہونا چاہئے کہ حرام مال کی وہ قلیل ترین مقدار بقیہ تمام حلال مال میں مل کر سارے مال کو مشتبہ بنادیگی اور مشتبہ مال ومشتبہ پیشے کے بارے میں بھی یہ مسئلہ ہے کہ اس سے اجتناب ہی اولی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو بطور ہدیہ وغیرہ کوئی ایسی چیز یا اییسا مال دے جس کی حرمت وحلت کے بارے میں شبہ ہو تو چاہئے کہ اس چیز یا اس مال کو اچھے انداز میں اور نرمی کے ساتھ دینے والے کو واپس کر دے ہاں اگر واپس کرنے دینے والا آزردہ خاطر ہو تو پھر واپس نہ کرنا چاہئے یہی حکم اس مشتبہ مال کی تحقیق کرنے کا بھی ہے کہ اگر وہ مشتبہ مال دینے والا آزردہ خاطر نہ ہو تو تب اس مال کی تحقیق کی جائے اور اگر وہ تحقیق کرنے سے آزردہ خاطر ہو تو پھر تحقیق بھی نہ کی جائے کیونکہ کسی مسلمان کو آزردہ خاطر کرنا حرام ہے جب کہ مشتبہ مال کی تحقیق کرنا ورع (تقوی) ہے اور اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ ورع کے لئے حرام کا ارتکاب نہ کرنا چاہئے ہاں جس مال کے بارے میں بالکل تحقیق ہو کہ یہ حرام محض ہے تو پھر اس کو واپس کردینا بہرصورت ضروری ہے اگرچہ دینے والا آزردہ خاطر ہی کیوں نہ ہو البتہ اگر اس مال کو واپس کرنے میں کسی فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو پھر اسے بھی واپس نہ کرے بلکہ اسے لے کر کسی مضطرب کو دیدے اور اگر خود مضطر ہو تو اسے اپنے استعمال میں لے آئے۔ جس بازار میں حرام مال کی تجارت ہوتی ہو اس بازار سے بھی اجتناب کرنا چاہئے کہ اس میں خریدو فروخت نہ کرے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں مال حرام ہے مشتبہ ہے اس کی تحقیق و تفتیش ضروری نہیں کیونکہ حرمت وشبہ کے معلوم نہ ہونے کی صورت میں ہر جگہ اور ہر چیز کی تحقیق وتجسس محض وسوسہ ہے۔ غیر مشروع کسب کی اجرت بھی جرام ہے مثلا مردوں کے لئے ریشمی کپڑے سینا یا مردوں کے لئے سونے کے زیور بنانا اسی طرح غیر مشروع خریدو فروخت سے حاصل ہونے ولا نفع ومال بھی حرام ہے ی سے محتکرہ غلہ بیچنا تمام تجارتوں میں سب سے بہتر تجارت بزازی ہے اسی طرح تمام پیشوں میں سب سے بہتر پیشہ مشک بنانا وسینا ہے۔ خریدوفروخت میں کھوٹے سکوں کو پھیلانا قطعا ناجائز ہے اگر کھوٹے ہاتھ لگیں تو انہیں کنویں وغیرہ میں ڈال کر ضائع کردینا چاہئے۔ اسی طرح ہر تاجر اور دو کاندار کے لئے ضروری ہے کہ وہ معاملات میں مکروفریب سے کام نہ لے بات بات پر قسم نہ کھائے کسی چیز میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے خریدار سے پوشیدہ نہ رکھے اپنی اشیاء کی تعریف و توصیف حقیقت سے زیادہ نہ کرے کوئی چیز کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت نہ کرے جو اسے حرام کام میں استعمال کرے مثلا انگور کسی شراب ساز کو نہ بیچے یا ہتھیار وغیرہ کسی ڈاکو وقزاق وغیرہ کے ہاتھ فروخت نہ کرے دستکاروصنعت گر اپنی بنائی ہوئی چیز میں کھوٹ ملاوٹ اور غلط چیزوں کی آمیزش نہ کرے کیونکہ ایسی چیز سے حاصل ہونے والی اجرت و قیمت حرام ہوتی ہے ناپ تول میں کمی نہ کرے غبن ودھو کہ دہی میں اپنا دامن ملوث نہ کرے ہمہ وقت یہ تصور رکھے کہ ناجائز طریقوں اور حرام ذرائع سے حاصل ہونے والا ایک پیسہ بھی جنت میں داخل ہونے سے روک دے گا تھوڑے منافع پر اکتفاء کرے کہ یہ مستحب ہے اور جس تجارت وحرفت میں مشغول ہو اور اس سے اس کی ضروریات پوری ہوجاتی ہوں تو اسی پر قناعت کرے اس کی موجودگی میں دوسری تجارتوں اور دوسرے کاروبار کے ذریعے زیادہ کمانے کی حرص نہ رکھے بلکہ اپنے بقیہ اوقات کو آخرت کی بھلائیوں کو حاصل کرنے میں صرف کرے کیونکہ صرف اس دنیا کی فانی زندگی کی راحت وتعیش کے حصول میں ہمہ وقت لگے رہنا اور آخرت کی ابدی زندگی کی سعادتوں سے بےپرواہ ہوجانا عقل و دانش سے بعید تر بات ہے۔ اپنے ہاتھ کی محنت کی روزی سب سے بہتر ہے حضرت مقدام بن معدی کرب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کبھی کسی نے اپنے ہاتھ کی محنت کی روزی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھوں کی محنت سے کمائی ہوئی روزی کھاتے تھے (بخاری)

تشریح
حضرت داؤد (علیہ السلام) اللہ کے ایک جلیل القدر نبی تھے اور ساتھ ہی اللہ نے انہیں دنیا کی سلطنت حکومت بھی عطا کی تھی۔ ان کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی حکومت میں لوگوں سے اپنے بارے میں تجسس کرتے رہتے تھے چناچہ جو شخص ان کو نہیں پہچانتا تھا اس سے وہ دریافت کرتے کہ بتاؤ داؤد کیسا ہے؟ لوگوں میں اس کی سیرت و عادت کس درجے کی ہے اور اس کے بارے میں تمہارا تاثر کیا ہے ایک دن ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کو آدمی کی صورت میں ان کے پاس بھیجا انہوں نے اس سے بھی اس قسم کے سوال کئے اس نے کہا داؤد (علیہ السلام) ہیں تو بہت اچھے آدمی مگر اتنی بات ضرور ہے کہ وہ بیت المال سے روزی کھاتے ہیں بس یہ سننا تھا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے دل و دماغ میں ایک بجلی سی کوند گئی فورا اپنے پروردگار سے دعا کی کہ رب العالمین مجھے بیت المال سے مستغنی بنا دے اور مجھے کوئی ایسا ہنر عطا کر دے کہ جس سے میں اپنی روزی کما سکوں چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں زرہ بنانے کا ہنر عطا فرمایا منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو ایسی خاصیت عنایت کی کہ لوہا ان کے ہاتھوں میں پہنچتے ہی موم کی طرح نرم ہوجاتا تھا جس سے وہ زرہ بناتے اور جو چار چار ہزار درہم میں فروخت ہوتی بلکہ بعض علماء نے تو یہ لکھا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) ہر روز ایک زرہ بناتے اور اس کو چھ ہار درہم میں فروخت کرتے پھر اس چھ ہزار کو اس طرح صرف کرتے کہ دو ہزار تو اپنی ذات اور اہل و عیال پر خرچ کرتے اور چار ہزار درہم بنی اسرائیل کے فقراء و مساکین میں بطور صدقہ و خیرات تقسیم کردیتے۔ بہرکیف آنحضرت ﷺ نے مذکورہ بالا ارشاد گرامی کے ذریعے جہاں یہ ارشاد فرمایا کہ کسب یعنی اپنی روزی خود پیدا کرنا انبیاء کی سنت ہے جیسا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے عمل سے معلوم ہوا اس لئے تم بھی ان کے طریقے کو اختیار کرو وہیں گویا آپ نے اپنی روزی خود اپنی صنعت وحرفت کے ذریعے پیدا کرنے پر لوگوں کو ترغیب دلائی ہے کیونکہ اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں مثلا جو شخص اپنی صنعت وحرفت سے کماتا ہے نہ صرف یہ کہ خود اسے منافع حاصل ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی صنعت وحرفت سے فائدہ پہنچتا ہے پھر یہ کہ ایسا شخص اپنے پیشے میں مصروف رہنے کی وجہ سے بری باتوں اور لہو ولعب سے محفوظ رہتا ہے نیز چونکہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی وجہ سے کسرنفسی بھی پیدا ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے نفس کی سرکشی سے بچتا ہے اور پھر سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایسا شخص کسی کا محتاج نہیں رہتا کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتا کسی کے آگے جھکتا نہیں اور اسے ایک ابرومندانہ زندگی حاصل رہتی ہے۔
Top