مشکوٰۃ المصابیح - حدود کا بیان - حدیث نمبر 3540
وعن عكرمة عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول به . رواه الترمذي وابن ماجه
اغلام کی سزا
اور حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم کسی شخص کو قوم لوط کا سا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو مار ڈالو۔ (ترمذی ابن ماجہ )

تشریح
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اغلام کی حد کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، چناچہ حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے زیادہ صحیح قول اور صاحبین حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ فاعل اغلام کرنے والے کی حد وہی ہے جو زانی کی حد ہے یعنی اگر وہ محصن ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے اور اگر غیر محصن ہو تو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کردیا جائے خواہ وہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایک جماعت کا رجحان اس طرف ہے کہ اغلام کرنے والے کو بہر صورت سنگسار کیا جائے خواہ محصن ہو یا غیر محصن ہو حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا قول بھی یہی ہے حضرت امام شافعی کا دوسرا قول یہ ہے کہ فاعل ومفعول اغلام کرنے والے اور اغلام کرانے والے دونوں ہی کو قتل کردیا جائے جیسا کہ اس حدیث کے ظاہر مفہوم سے معلوم ہوتا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ان کے قتل کا طریقہ کیا ہو تو بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں پر مکان گرا دیا جائے تاکہ وہ اس کے نیچے دب کر مرجائیں اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ان کو پہاڑ کے اوپر لے جا کر وہاں سے نیچے پھینک دیا جائے۔ اس بارے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اغلام کی سزا کے تعین کا اختیار حاکم وقت کے سپرد ہے کہ اگر وہ چاہے تو اغلام کرنے والے کو قتل کر دے جب کہ یہ برائی اس کی عادت بن چکی ہو، نیز چاہے اس کو مارے اور چاہے قید خانہ میں ڈال دے۔
Top