مشکوٰۃ المصابیح - حدود کا بیان - حدیث نمبر 3525
وعن عبادة بن الصامت أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : خذوا عني خذوا عني قد جعل الله لهن سبيلا : البكر بالبكر جلد مائة ووتغريب عام والثيب بالثيب جلد مائة والرجم (2/309) 2559 - [ 5 ] ( متفق عليه ) وعن عبد الله بن عمر : أن اليهود جاؤوا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فذكروا له أن رجلا منهم وامرأة زنيا فقال لهم رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما تجدون في التوراة في شأن الرجم ؟ قالوا : نفضحهم ويجلدون قال عبد الله بن سلام : كذبتم إن فيها الرجم فأتوا بالتوراة فنشروها فوضع أحدهم يده على آية الرجم فقرأ ما قبلها وما بعدها فقال عبد الله بن سلام : ارفع يدك فرفع فإذا فيها آية الرجم . فقالوا : صدق يا محمد فيها آية الرجم . فأمر بهما النبي صلى الله عليه و سلم فرجما . وفي رواية : قال : ارفع يدك فرفع فإذا فيها آية الرجم تلوح فقال : يا محمد إن فيها آية الرجم ولكنا نتكاتمه بيننا فأمر بهما فرجما
شادی شدہ زانی اور زاینہ کو سنگسار کیا جائے۔
اور حضرت عبادہ ابن صامت راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا زانیہ کے بارے میں مجھ سے یہ حکم حاصل کرو، مجھ سے یہ حکم حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ مقرر کردی ہے، جو غیر محصن مرد کسی غیر محصنہ عورت سے زنا کرے تو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کردیا جائے۔ اور جو محصن مرد کسی محصنہ عورت سے زنا کرے تو سو کوڑے مارے جائیں اور سنگسار کیا جائے۔ (مسلم)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ مقر کردی ہے یہ دراصل اس آیت کریمہ (اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا) 4۔ النساء 15) کی وضاحت ہے۔ علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد اس وقت فرمایا تھا جب زانی اور زانیہ کے لئے حد مشروع ہوئی تھی، چناچہ آپ ﷺ کے اس ارشاد میں راہ سے مراد حد ہے جو اس سے پہلے تک مشروع نہیں تھی بلکہ اس بارے میں وہ حکم مشروع تھا جو آیت کریمہ میں مذکور ہے (وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَا ى ِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا)۔ 4۔ النساء 15) تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کو گواہ کرلو، سو اگر وہ گواہی دے دیں تو تم ان کو گھروں کے اندر مقید رکھو۔ یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کر دے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی راہ مقرر کر دے۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا تھا کہ اگر عورتیں زنا کی مرتکب ہوں اور گواہوں کے ذریعہ ان کا یہ جرم ثابت ہوجائے تو ان کو گھر میں قید کردیا جائے یا تاآنکہ اسی قید کی حالت میں مرجائیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے کوئی راہ یعنی حد مقرر کی جائے۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے حد کا حکم نازل فرمایا تو آنحضرت ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راہ یعنی حد مقرر فرما دی ہے اور پھر اس کے بعد آپ نے حد کی وضاحت فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محصن (شادی شدہ) زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو سو کوڑے بھی مارے جائیں اور سنگسار بھی کیا جائے، چناچہ علماء ظواہر نے اور صحابہ وتابعین میں سے بعض نے اس پر عمل کیا ہے جب کہ جمہور علماء کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو زانی سنگسار کا مستوجب قرار پا چکا ہو اس کے حق میں سو کوڑے مارے جانے کا سزا کالعدم ہوگی یعنی اس کو صرف سنگسار کیا جائے گا۔ سو کوڑے نہیں مارے جائیں گے، کیونکہ یہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص ماعز کو جو شادی شدہ ہونے کی باوجود زنا کے مرتکب قرار دئیے گئے تھے صرف سنگسار کیا تھا ان کو سو کوڑے مارنے کا حکم نہیں تھا، اسی طرح آگے آنے والی ایک حدیث میں ایک غامدیہ عورت کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے یا حضرت انیس کی جو حدیث پیچھے گذری ہے ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن یہودیوں کی ایک جماعت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہوں نے آپ ﷺ کے سامنے یہ بیان کیا کہ ان کی قوم میں سے ایک عورت اور ایک مرد نے جو دونوں محصن (یعنی شادی شدہ تھے) نے زنا کیا؟ آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم نے تورات میں رجم کے بارے میں کیا پڑھا ہے؟ یہودیوں نے کہا کہ ہم زنا کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور ان کو کوڑے مارے جاتے ہیں ان کی یہ بات سن کر حضرت عبداللہ ابن سلام نے کہا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو، تورات میں بھی رجم کا حکم مذکور ہے تورات لاؤ میں تمہیں رجم کا حکم دکھاتا ہوں چناچہ جب تورات لائی گئی اور اس کو کھولا گیا تو یہودیوں میں سے ایک شخص نے جھٹ سے اس جگہ اپنا ہاتھ رکھ دیا جہاں رجم کے بارے میں آیت تھی یعنی اس نے اپنے ہاتھوں سے رجم کی آیت کو چھپانے کی کوشش کی اور اس کے آگے پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن سلام نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو دیکھا گیا کہ وہاں رجم کی آیت موجود تھی، اس آیت کو چھپانے والے نے کہا کہ اے محمد! تورات میں رجم کی آیت موجود ہے مگر ہم آپس میں اس کو ظاہر نہیں کرتے، اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور وہ دونوں سنگسار کردیئے گئے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے اس شخص سے (کہ جس نے رجم کی آیت کو اپنے ہاتھ کے نیچے چھپانے کی کوشش کی تھی) کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ اور پھر جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو دیکھا گیا کہ وہاں رجم کی آیت موجود تھی، اس آیت کے نیچے کو چھپانے والے نے کہا کہ اے محمد! تورات میں رجم کی آیت موجود ہے مگر ہم آپس میں آپس میں اس کو ظاہر نہیں کرتے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور سنگسار کردیئے گئے۔ (بخاری ومسلم ) تشریح حضرت عبداللہ بن سلام پہلے یہودی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو راہ ہدایت پر گامزن کیا اور وہ مسلمان ہوگئے ان کا شمار بڑے اونچے درجہ کے علماء یہود میں ہوتا تھا تورات پر عبور رکھتے تھے، چناچہ مجلس نبوی میں جب یہودیوں نے اپنی روایتی تلبیس و تحریف سے کام لیا اور آنحضرت ﷺ سے یہ کہا کہ تورات میں زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ہم نے تورات میں یہ پڑھا ہے کہ جو شخص زنا کا ارتکاب کرے اس کو تعزیر کے ذریعہ ذلیل و رسوا کیا جائے اور کوڑے مارے جائیں تو حضرت عبداللہ ابن اسلام نے اس کی تکذیب کی اور یہ بتایا کہ تم یہ بات کہہ رہے ہو وہ سراسر تحریف ہے تورات میں رجم کا حکم موجود نہیں ہے اور پھر جب انہوں نے تورات منگائی اس میں مذکور رجم کی آیت دکھانی چاہی تو اس موقع پر بھی یہودیوں نے اپنی عیاری و مکاری دکھانی چاہی اور ان میں سے ایک شخص نے ایک روایت کے مطابق جس کا نام عبداللہ ابن صوریا تھا، اس جگہ اپنا ہاتھ رکھ دیا جہاں رجم کی آیت مذکور تھی۔ اور اس کے آگے پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا! مگر عبداللہ بن سلام نے ان کی اس عیاری کا راز بھی طشت از بام کردیا۔ اگر یہاں یہ اشکال پیدا ہو کہ رجم (سنگساری) کا سزاوار ہونے کے لئے محصن شادی شدہ ہونا شرط ہے اور محصن ہونے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے یعنی سنگساری کی سزا اسی زانی کو دی جاسکتی ہے جو محصن ہو اور محصن اطلاق اسی شخص پر ہوسکتا ہے جو مسلمان ہو تو آنحضرت ﷺ نے ان یہودیوں کو جو مسلمان نہیں تھے رجم کا حکم کیوں دیا؟ اس کا جواب ہے یہ کہ آنحضرت ﷺ نے ان یہود کو رجم کا جو حکم دیا وہ تورات کے حکم کے تحت تھا اور یہودیوں کے مذہب میں رجم کے سزاوار کے لئے محصن ہونا شرط نہیں تھا، پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ اس بارے میں پہلے تورات کے حکم پر عمل کرتے تھے مگر جب قرآن میں اس کا حکم نازل ہوگیا تو تورات کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اس موقع پر یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک محصن ہونے کے لئے مسلمان ہونا شرط نہیں ہے یعنی ان کے مسلک کے مطابق محصن کا اطلاق اس شادی شدہ آدمی پر بھی ہوسکتا ہے جو مسلمان نہ ہو نیز حنیفہ میں سے حضرت امام ابویوسف کا بھی ایک قول یہی ہے۔ ایک اشکال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے محض یہودیوں کے کہنے پر ان دونوں کو کیسے سنگسار کرا دیا کیونکہ یہودیوں کی گواہی سرے سے معتبر ہی نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کیا ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صرف ان یہودیوں کے کہنے پر ہی حکم نافذ کیا ہو، بلکہ بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یا تو خود ان دونوں نے زنا کا اقرار کیا ہوگا یا ان کے زنا کی چار مسلمانوں نے گواہی دی ہوگی اور اسی پر آنحضرت ﷺ نے ان دونوں کو سنگسار کرایا ہوگا۔ اس موقع پر ملا علی قاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے یہاں اس کا خلاصہ نقل کیا گیا ہے اہل علم ان کی کتاب مرقات سے مراجعت کرسکتے ہیں۔
Top