مشکوٰۃ المصابیح - چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ - حدیث نمبر 3557
وعن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي حسين المكي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : لا قطع في ثمر معلق ولا في حريسة جبل فإذا آواه المراح والجرين فالقطع قيما بلغ ثمن المجن . رواه مالك
غیر مملوکہ پہاڑی جانوروں پر چوری کا اطلاق نہیں ہوگا :
اور حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابوحسین مکی سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا درخت پر لگے ہوئے میوے اور پہاڑوں پر چرنے والے جانوروں کے مقدمہ میں قطع ید کی سزا نہیں ہے ہاں اگر کوئی شخص کسی پہاڑی جانور کو جانوروں کے بندھنے کی جگہ لا کر باندھ دے یا میوے کو (خشک ہونے کے بعد) کھلیان میں جمع کر دے تو اس کی چوری میں قطع ید کی سزا دی جائے گی بشرطیکہ چیز مسروقہ کی مالیت ایک ڈھال کی قیمت کے بقدر یا اس سے زائد ہو۔ (مالک)

تشریح
طیبی کہتے ہیں کہ لفظ حریسۃ دراصل مفعول کے معنی میں ہے گویا (حریسۃ جبل) معنی کے اعتبار سے (محروسۃ جبل) ہے اور (محروسۃ جبل) اس جانور کو کہتے ہیں جو پہاڑوں پر چرتا پھرتا ہو اور کوئی شخص اس کی حفاظت نہ کرتا ہو یعنی وہ کسی کی ملکیت میں نہ ہو، ایسے ہی جانور کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کو پکڑ لائے تو اس پر چوری کا اطلاق نہیں ہوگا کیونکہ نہ تو وہ جانور محرز ہے اور نہ کسی کی ملکیت میں ہے، ہاں اگر پہلے سے کسی شخص نے اس جانور کو پکڑ کر اپنے یہاں باندھ رکھا ہے تو چونکہ اب وہ جانور ایک شخص کی ملیکت میں آگیا ہے اس لئے اگر کوئی دوسرا شخص اس کو وہاں سے چرائے گا اور اس کی قیمت ایک ڈھال کی قیمت کے بقدر یا اس سے زائد ہوگی تو چرانے والے کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
Top