مشکوٰۃ المصابیح - چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احادیث مبارکہ - حدیث نمبر 3556
عن رافع بن خديج عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : لا قطع في ثمر ولا كثر رواه مالك والترمذي وأبو داود والنسائي والدارمي وابن ماجه (2/317) 3594 - [ 5 ] ( حسن ) وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عبد الله بن عمرو بن العاص عن رسول الله صلى الله عليه و سلم : أنه سئل عن الثمر المعلق قال : من سرق منه شيئا بعد أن يؤويه الجرين فبلغ ثمن المجن فعليه القطع . رواه أبو داود والنسائي
پھل وغیرہ کی چوری میں قطع ید کی سزا ہے یا نہیں ؟
حضرت رافع ابن خدیج نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا درخت پر لگے ہوئے میوے اور کھجور کے سفید گابھے کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے۔ (مالک، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، دارمی، ابن ماجہ، )

تشریح
یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی مستدل ہے وہ اس کی بنیاد پر فرماتے ہیں کہ تر میوہ پھل چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا خواہ وہ میوہ محرز ہو یا غیر محرز۔ غیر محرز کی تعریف پیچھے گذر چکی ہے اسی پر گوشت دودھ اور ان چیزوں کو بھی قیاس کیا گیا ہے جو دیر پا نہ ہوں اور جلدی ہی خراب و متغیر ہوجاتی ہوں کہ ان کی چوری میں بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا امام اعظم علاوہ دوسروں نے ان سب چیزوں کی چوری میں قطع ید کی سزا کو واجب کیا ہے چناچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ چیزیں جو بہت معمولی اور حقیر ہوں اور جو دار السلام میں ہر شخص کے لئے مباح کے درجہ میں ہوں جیسے گھاس لکڑی نرسل مچھلی پرندہ ہڑتال اور چونا وغیرہ ان کی چوری کرنے والا بھی قطع ید کا سزا وار نہیں ہوگا۔ اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاص سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ سے درخت پر لگے ہوئے پھلوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص ان پھلوں میں سے کچھ اس وقت چرائے جب کہ ان کو درختوں سے توڑ کر جمع کرلیا گیا ہو اور ان (چرائے ہوئے پھلوں) کی قیمت ایک ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو وہ قطع ید کا سزا وار ہوگا۔ (ابو داؤد، نسائی) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ درخت پر لگے ہوئے پھل کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے کیونکہ وہ محرز نہیں ہے ہاں جب وہ پھل درخت پر سے توڑ لئے گئے اور ان کو خشک ہونے کے لئے کھلیان میں جمع کردیا گیا تو اب ان کی چوری میں قطع ید کی سزا واجب ہوگی کیونکہ اس صورت میں وہ محرز ہوگئے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ حدیث امام ابوحنیفہ کے سوا جمہور علماء کی دلیل ہے کیونکہ امام ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ پھل جب تک خشک نہیں ہوا ہے اس کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے خواہ وہ پھل محرز ہو یا غیر محرز۔ اس حدیث کے بارے میں حنیفہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ حدیث میں جب کہ ان کو توڑ کر جمع کرلیا گیا ہو کی قید کا تعلق ان پھلوں کے خشک ہوجانے کے بعد سے ہے جیسا کہ عرب میں رواج تھا (کہ جس طرح درخت سے پھلوں کو توڑ کر خشک ہونے کے لئے کھلیان وغیرہ میں پھیلا دیا جاتا ہے تھا اس طرح پھلوں کو ان کے خشک ہونے کے بعد کسی جگہ جمع بھی کردیا جاتا تھا) اور حنیفہ کے نزدیک بھی ان پھلوں کی چوری میں قطع ید کی سزا جاری ہوگی جو خشک ہونے کے بعد کھلیان وغیرہ میں جمع کئے گئے ہیں۔ پھل جب تک خشک نہ ہوں اس وقت تک ان کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہوگی خواہ وہ درخت پر لگے ہوئے ہوں یا ان کو توڑ کر کھلیان وغیرہ میں جمع کردیا گیا ہو جیسا کہ ثمر (تازہ پھل) کے بارے میں پچھلی حدیث میں بیان کیا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ یہ حدیث نہ صرف پچھلی حدیث (لا قطع فی ثمر والاکثر) کے مطلق مفہوم کے معارض ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد حدیث (والا قطع فی الطعام) (کھانے کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے ) کے بھی معارض ہے چونکہ حدود کے باب میں ضروری ہے کہ مسلمان کی جان اور اس کے اعضاء کے تحفظ کے پیش نظر حد جاری کرنے میں حتی الا مکان احتیاط و رعایت کے تمام گوشوں کو ملحوظ رکھا جائے اور ہر ایسے نکتہ و پہلو کو ترجیح دی جائے جس سے نفاذ حد، کم سے کم قابل عمل رہے اس لئے ان احادیث کے تعارض کی صورت میں اس حدیث کو ترجیح دی جانی چاہئے جس کا مفہوم پھل کی چوری کے سلسلے میں بالکل مطلق ہے اس موقع پر بھی ملا علی قاری نے اپنی کتاب مرقات میں بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اہل علم ان کی کتاب سے مراجعت کرسکتے ہیں۔
Top