Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (3718 - 3808)
Select Hadith
3718
3719
3720
3721
3722
3723
3724
3725
3726
3727
3728
3729
3730
3731
3732
3733
3734
3735
3736
3737
3738
3739
3740
3741
3742
3743
3744
3745
3746
3747
3748
3749
3750
3751
3752
3753
3754
3755
3756
3757
3758
3759
3760
3761
3762
3763
3764
3765
3766
3767
3768
3769
3770
3771
3772
3773
3774
3775
3776
3777
3778
3779
3780
3781
3782
3783
3784
3785
3786
3787
3788
3789
3790
3791
3792
3793
3794
3795
3796
3797
3798
3799
3800
3801
3802
3803
3804
3805
3806
3807
3808
مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 5786
واقعہ معراج کا ذکر
دودھ فطرت ہے الخ فطرت دین سے مراد دین اسلام ہے جس کو حق تعالیٰ نے ہر انسان کی پیدائش وخلقت کی بنیاد ہے۔ دودھ اور فطرت یعنی دین اسلام میں مماثلت و مناسبت یہ ہے کہ جس طرح دین اسلام انسان کی رواحانی اور اعتقادی تخلیق کی خشت اول ہے اسی طرح دودھ انسان کی جسمانی پرورش اور اٹھان کا بنیادی عنصر ہے، یہ دودھ ہی ہوتا ہے جس سے آدمی کی پیدائش ہوتے ہی پرورش شروع ہوجاتی ہے اور پھر دودھ میں جو فطری خوبیاں، لطافت و پاکیزگی، شیرین ومنفعت اور خوشگواری ہے، اس سے دین فطرت یعنی اسلام کو بہت مناسبت حاصل ہے، اسی لئے عالم بالا میں دین اور علم کی مثال دودھ کو قرار دیا گیا ہے اور علماء کہتے ہیں اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ دودھ پی رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس شخص کو دین اور علم سے بہت زیادہ حصہ اور بیشمار فوائد حاصل ہوں گے۔ تم اور تماری امت کے لوگ اس فطرت پر رہیں گے۔ یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف سے بشارت تھی کہ آپ ﷺ نے چونکہ دودھ کے پیالہ کو اختیار فرمایا اس لئے ثابت ہوگیا کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے لوگ دین اور علم کی راہ پر گامزن رہیں گے دودھ کے مقابلہ پر شراب ہے، جو ہر برائی کی جڑ بتائی گئی ہے اور آپ ﷺ نے اس کو ترک کر کے گویا اپنی امت کے لوگوں کو بالعموم برائی کے راستہ پر جانے سے روک دیا ہے، چناچہ ایک حدیث میں یہ منقول ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا تھا اگر آپ شر اب کا پیالہ لے لیتے تو پھر آپ کی امت فتنہ و فساد یعنی تمام خرابیوں کی جڑ پڑجاتی واضح رہے کہ ( معراج کا واقعہ) جس زمانہ کا ہے اس وقت شراب پینا مباح تھا، خصوصا شراب جنت ( جو آپ ﷺ کو اس موقع پر پیش کی گئی، کی حیثیت دوسری تھی لیکن اس کے باوجود عالم بالا میں جس چیز کو برائی اور خرابی کی جڑ قرار دیا گیا وہ شراب ہی ہے۔ اب رہ گئی شہد کی بات، تو اگرچہ شہد بھی ایک لطیف اور پاکیزہ چیز ہے اور اس کو شفا کا ذریعہ بھی بتایا گیا ہے لیکن اس کی لطافت و پاکیزگی اور خوشگواری چونکہ دودھ سے بڑھ کر نہیں، بلکہ اس سے کم ہی ہے اور اس کی حیثیت بھی دودھ کی بہ نسبت غیر اہم ہے، اس لئے آپ ﷺ نے دودھ کے مقابلہ پر شہد کو بھی ترجیع نہیں دی۔ ویسے آگے جو حدیث آرہی ہے اس میں شہد کا ذکر بھی نہیں ہے، صرف دودھ اور شراب کے پیالوں کا ذکر ہے۔ نیز اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ چیزوں کے پیالے آپ ﷺ کے سامنے اس وقت پیش کئے گئے جب آپ ﷺ سدرۃ المنتہی کے پاس تھے جب کہ آگے آنے والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیالے آپ ﷺ کے سامنے بیت المقدس میں پیش کئے گئے، لہذا علماء نے لکھا ہے کہ یہ پیالے آپ ﷺ کے سامنے دو مرتبہ پیش کئے گئے تھے، ایک مرتبہ مسجد اقصی میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد، اس وقت صرف دو پیالے آپ ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے یعنی ایک دودھ کا اور ایک شراب کا، جیسا کہ اگلی حدیث میں ذکر ہے اور دوسری مرتبہ آسمان پر ( سدرۃ المنتہی کے پاس) تین پیالے پیش کئے گئے جن میں سے ایک دودھ کا تھا، ایک میں شہد تھا اور ایک میں شراب تھی۔ تم پھر پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لئے ( پانچ نمازوں میں بھی) تخفیف کی درخواست کرو۔ کے تحت خطابی نے کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا آنحضرت ﷺ کو باربار اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجنا اور ان کے مشورہ پر آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ سے نمازوں کی تعداد میں تخفیف کی درخواست کرنا اس بات کی علامت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نمازوں کی فرضیت کا جو ابتدائی حکم صادر ہوا ہے وہ وجوب قطعی کے طور پر نہیں ہے، اس میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات معلوم نہ ہوتی تو وہ بار بار تخفیف کی درخواست کا مشورہ نہ دیتے، نیز آنحضرت ﷺ کی طرف سے بار بار درخواست پیش کرنا اور ہر مرتبہ اس درخواست کا منظور ہونا بھی اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پہلا حکم قطعًا وجوب کے طور پر نہیں تھا کیونکہ جو حکم وجوب قطعی کے طور پر جاری ہوتا ہے اس میں تخفیف کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ملا علی قاری نے خطابی کے اس قول کو طیبی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد اپنی طرف سے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک خطابی کی بات وزن دار نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ تخفیف کی درخواست کرنا اصل میں علامت ہی اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم وجوب کے طور پر تھا، کیونکہ جو چیز واجب نہ ہو اس میں تخفیف کی درخواست کی ضرورت پیش نہیں آتی، لہٰذا اس سلسلہ میں صحیح بات وہی ہے جو بعض حضرات نے نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پچاس نمازیں ہی فرش کی تھیں پھر اپنے بندوں کے حال پر رحم کرتے ہوئے تخفیف کی درخواست قبول فرمائی اور پچاس نمازوں کے حکم کو منسوخ کر کے پانچ نمازوں کا حکم جاری ونافذ فرمایا جیسا کہ اور بعض احکام میں بھی تبدیلی ومنسوخی کا عمل ہوا ہے۔
Top