مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 3808
وعن علي قال : كانت بيد رسول الله صلى الله عليه و سلم قوس عربية فرأى رجلا بيده قوس فارسية قال : ما هذه ؟ ألقها وعليكم بهذه وأشباهها ورماح القنا فإنها يؤيد الله لكم بها في الدين ويمكن لكم في البلاد . رواه ابن ماجه
جنگ میں حقیقی طاقت حق تعالیٰ کی مدد ونصرت سے حاصل ہوتی ہے
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں ( کسی میدان میں یا ویسے ہی کسی موقع پر) رسول کریم ﷺ کے ہاتھ میں عربی کمان تھی، جب آپ ﷺ نے ایک شخص ( صحابی) کے ہاتھ میں فارسی ( ایرانی کمان دیکھی تو فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ اس کو پھینک دو، تمہیں ایسی ( یعنی عربی) کمان رکھنی چاہئے۔ اور اسی طرح ( یعنی اس وضع کی) رکھنی چاہئے۔ نیز تمہیں کامل نیزے رکھنے چاہئیں، یقینا ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دین ( کو سر بلند رکھنے) میں تمہاری مدد کرے گا اور ( دشمنوں کے) شہروں میں تمہیں جما دے گا۔ ( ابن ماجہ)

تشریح
گویا ان صحابی نے جب یہ دیکھا ہوگا کہ فارسی ( ایرانی) کمان زیادہ مضبوط اور زیادہ سخت ہوتی ہے تو انہوں نے اس کمان کو عربی کمان پر ترجیح دی، نیز پھر انہوں نے یہ گمان کیا ہوگا کہ ایسی کمان جنگ میں بہت کار آمد ہوتی ہے اور دشمنوں کے شہروں کو فتح کرنے کا مضبوط ذریعہ ہے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان پر واضح کیا کہ تمہارا جو خیال ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ آلات حرب خواہ کسی قسم کے ہوں اور دیکھنے میں کتنے ہی مضبوط و عمدہ ہوں حقیقت میں میدان جنگ کی کامیابی کا ان پر انحصار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اپنے دین کی سر بلندی کی جدوجہد میں مدد ونصرت دے کر کامیاب وکامران کرتا ہے۔ حقیقی مدد ونصرت اسی کی طرف سے اور اسی کی قوت وقدرت کے ساتھ ہوتی ہے، نہ تمہاری قوت و طاقت سے دین کی سر بلندی میں نصرت حاصل ہوتی ہے اور نہ محض تمہارے سازوسامان اور آلات حرب کی مضبوطی و عمدگی سے دشمنوں کے مقابلے پر مدد ملتی ہے۔
Top