مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 3797
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من أدخل فرسا بين فرسين فإن كان يؤمن أن يسبق فلا خير فيه وإن كان لا يؤمن أن يسبق فلا بأس به . رواه في شرح السنة وفي رواية أبي داود : قال : من أدخل فرسا بين فرسين يعني وهو لا يأمن أن يسبق فليس بقمار ومن أدخل فرسا بين فرسين وقد أمن أن يسبق فهو قمار
مسابقت میں محلل کے شامل ہونے کا مسئلہ
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص دو گھوڑوں کے درمیان اپنا گھوڑا شامل کرے تو اگر وہ گھوڑا ایسا ہے کہ ( جس کے تیز رو ہونے کی وجہ سے) اس کے بارے میں یہ یقین ہے کہ وہ ( ان دونوں گھوڑوں سے) آگے نکل جائے گا تو اس میں بھلائی نہیں ہے اور اگر یہ یقین نہیں ہے کہ وہ آگے نکل جائے گا تو پھر اس میں مضائقہ نہیں۔ ( شرح السنۃ) اور ابوداؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا) اگر کوئی شخص دو گھوڑوں کے درمیان اپنا گھوڑا شامل کرے یعنی جس کے بارے میں یہ یقین نہیں ہے کہ اگر وہ آگے نقل جائے گا تو یہ قمار ( جوا) نہیں ہے اور اگر کوئی شخص دو گھوڑوں کے درمیان اپنا ( ایسا) گھوڑا شامل کرے جس کے بارے میں یہ یقین ہے کہ وہ آگے نکل جائے گا تو یہ قمار ہے۔

تشریح
جو شخص دو گھوڑوں کے درمیان اپنا گھوڑا شامل کرے۔ یہ تحلیل کی صورت ہے جو مسابقت ( یعنی گھوڑ دوڑ کے ہونے والے مقابلہ) میں بازی لگانے اور شرط باندھنے کو جائز کرتی ہے اور ایسے شخص کو ( کہ جو دو گھوڑوں کے درمیان ہونے والے مقابلہ میں اپنا گھوڑا شامل کرے محلل کہتے ہیں۔ اس صورت کی وضاحت یہ ہے کہ مثلا وہ شخص یعنی زید اور بکر نے مقابلے کے لئے اپنے اپنے گھوڑے دوڑائے اور دونوں نے ہار جیت کی شرط باندھی کہ جس کا گھوڑا آگے نکل جائے گا وہ پیچھے رہ جانے والے گھوڑے کے مالک سے اتنی رقم یا فلاں چیز لے لے گا۔ اس طرح انہوں نے ایک قمار ( جوئے) کا معاملہ کیا، اب ایک تیسرا شخص یعنی خالد آتا ہے اور وہ ان دونوں کی گھوڑوں کی دوڑ میں شرط کے ساتھ اپنا گھوڑا بھی شامل کردیتا ہے کہ اگر یہ تیسرا ( میرا) گھوڑا ان دونوں گھوڑوں سے آگے نکل گیا تو میں تم دونوں سے اتنی رقم یا فلاں چیز لے لوں گا اور پیچھے رہ گیا تو مجھے کچھ نہیں دینا ہوگا۔ یہی صورت تحلیل کی ہے اور اس تیسرے شخص یعنی خالد کو محلل ( حلال کرنے والا) کہیں گے۔ ایسے شخص کو محلل اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے وہ معاملہ حلال و جائز ہوگیا جو پہلے جانبین کی طرف سے شرط وبازی لگانے کی وجہ سے ایک حرام معاملہ یعنی قمار تھا، چناچہ مذکورہ صورت میں اگر محلل کا گھوڑا آگے نکل جائے تو وہ ان دونوں سے متعینہ رقم یا مقررہ چیز لے لے اور اگر ان دونوں گے گھوڑے اس کے گھوڑے اس کے گھوڑے سے آگے نکل جائیں تو وہ ان کو کچھ نہ دے البتہ جو ان دونوں میں سے ایک کا گھوڑا آگے نکلے گا اس کو دوسرے سے متعینہ رقم یا مقررہ چیز لینا جائز ہوگا۔ واضح رہے کہ علماء نے لکھا ہے اور جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ تحلیل کی صورت میں محلل کو چاہئے کہ وہ اس گھوڑ دوڑ میں ایسے گھوڑے کو شامل کرے جو دوڑنے میں ان دونوں کے گھوڑے کے برابر یا تقریبًا برابر ہو، چناچہ اگر محلل کا گھوڑا ان دونوں کے گھوڑے سے آگے اس طرح کا تیز رو ہو کہ وہ محلل جانتا ہے کہ ان دونوں کے گھوڑے میرے گھوڑے سے آگے نہیں نکل سکتے تو نہ صرف یہ کہ یہ جائز نہیں بلکہ اس کا اپنے گھوڑے کو اس گھوڑ دوڑ میں شامل کرنا اور نہ کرنا برابر ہوگا یعنی یہ صورت تحلیل کی نہیں ہوگی۔ ہاں اگر وہ یہ نہیں جانتا کہ میرا گھوڑا ان دونوں کے آگے نکل جائے گا اور نہ یہ جانتا ہے کہ میرا گھوڑا ان دونوں کے گھوڑے سے پیچھے رہ جائے گا تو یہ جائز ہے اور یہ صورت تحلیل کی مانی جائے گی۔ حاصل یہ کہ اگر محلل کا گھوڑا ایسا ہے کہ وہ آگے نکل جانے کا بھی احتمال رکھتا ہے اور پیچھے رہ جانے کا بھی احتمال رکھتا ہے تو جائز ہوگا ورنہ نہیں۔
Top