مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 3761
وعن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تركب البحر إلا حاجا أو معتمرا أو غازيا في سبيل الله فإن تحت البحر نارا وتحت النار بحرا . رواه أبو داود
بلاضروت شرعی بحری سفر کی ممانعت
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم با ارادہ حج یا عمرہ اور یا اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے جانے کے علاوہ دریا میں سفر نہ کرو کیونکہ دریا کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے دریا ہے۔ (ابو داؤد)

تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ پانی میں سفر کرنا ایک خطرناک مہم ہے اور علقمند آدمی کو چاہئے کہ وہ اس خطرناک مہم کے ذریعہ اپنے آپ کو ہلاکت وخوف میں نہ ڈالے کیونکہ کسی شرعی ضرورت کی بناء پر کہ جو تقرب بارگارہ الہٰی کے حصول کا ذریعہ ہے کسی خطرناک و ہلاکت خیز مہم میں اپنے آپ کو ڈالنا ایک مستحسن فعل ہے لیکن بلا ضرورت شرعی ایسا کوئی بھی فعل عقل و دانش کے منافی ہے۔ اس حدیث سے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ترک حج کے لئے سمندر ودریا ایک عذر شرعی ہے چناچہ اس سلسلے میں سب سے بہتر اور قابل عمل بات مشہور فقیہ حضرت ابواللیث سمر قندی کی ہے جو یہ فرماتے ہیں کہ جب دریائی سفر میں سلامتی کا پہلو غالب ہو تو حج پر جانا فرض ہوتا ہے اور اگر سلامتی کا پہلو غالب نہ ہو تو پھر حج کا ارادہ کرنے والا مختار ہے کہ اگر ہمت ساتھ نہ دے تو نہ جائے اور اگر وہ سلامتی کا ظن غالب نہ ہونے کے باوجود جانا چاہے تو چلا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس موقع پر اس آیت کریمہ (وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَہ) 2۔ البقرۃ 195)۔ اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہی و ہلاکت مت ڈالو۔ کے بارے میں بھی یہ بتادینا ضروری ہے کہ یہ آیت اس صورت پر محمول ہے جب کہ اس جگہ کوئی شرعی غرض اور دینی کام نہ ہو چناچہ اسی لئے بیضاوی نے اس آیت کی تفسیر میں تباہی و ہلاکت کی کچھ صورتیں بیان کی ہیں کہ جیسے اپنے مال کا اسراف کرنا یا اپنی معاش کے ذریعہ مثلاً نوکری یا تجارت وغیرہ کو اپنے ہاتھوں ضائع و ختم کردینا اور جہاد میں شرکت کرنے یا اپنا مال خرچ کرنے سے باز رہنا دراصل دشمن کو قوت پہنچانا اور ان کو اپنی ہلاکت کے لئے اپنے اوپر مسلط کرلینا ہے۔ دریا کے نیچے آگ ہے اس جملہ کا مقصد لوگوں کو سمندر ودریا سے ڈرانا اور اس بات کو اہمیت کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ سمندر ودریا کے سفر میں بڑا خطرہ ہے کیونکہ سمندر ودریا میں سفر کرنے والا مختلف قسم کے آفات سے دو چار رہتا ہے اور خصوصًا پہلے زمانے میں تو پانی کا سفر اپنے دامن میں بہت ہی خطرے رکھتا تھا اور مسافروں کو یکے بعد دیگرے ایسی مختلف خطرناک صورت حال سے دو چار ہونا پڑتا تھا جس کی وجہ سے ہر لمحے موت و ہلاکت بالکل سامنے کھڑی نظر آتی تھی۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس جملہ کو اس کے اصل معنی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
Top