مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 3739
وعنه قال : انطلق رسول الله صلى الله عليه و سلم وأصحابه حتى سبقوا المشركين إلى بدر وجاء المشركون فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : قوموا إلى جنة عرضها السماوات والأرض . قال عمير بن الحمام : بخ بخ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما يحملك على قولك : بخ بخ ؟ قال : لا والله يا رسول الله إلا رجاء أن أكون من أهلها قال : فإنك من أهلها قال : فأخرج تمرات من قرنه فجعل يأكل منهن ثم قال : لئن أنا حييت حتى آكل تمراتي إنها الحياة طويلة قال : فرمى بما كان معه من التمر ثم قاتلهم حتى قتل . رواه مسلم
شہید کی منزل جنت ہے
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ (غزوہ بدر کے موقع پر) رسول کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ (مدینہ) روانہ ہوئے اور مشرکوں سے پہلے بدر (کے میدان جنگ) میں پہنچ گئے پھر (جب اسلامی مجاہدین کے پہنچنے کے بعد) مشرکین کا لشکر آیا اور (مقابلہ کی تیاری شروع ہوئی) تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جنت کے راستے پر کھڑے ہوجاؤ، وہ جنت جس کا عرض زمین و آسمان کے عرض کے برابر ہے (ایک صحابی) حضرت عمیر ابن حمام انصاری نے (یہ ارشاد سن کر کہا کہ خوب! خوب! رسول اللہ ﷺ نے پوچھا تم نے خوب خوب کیوں کہا؟ عمیر نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے یہ الفاظ (اظہار تعجب یا کسی اور مطلب سے نہیں کہے بلکہ (درحقیقت ان الفاظ کے ذریعہ اپنی اس آرزو کا اظہار کیا ہے کہ میں بھی جنتی بنوں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس میں کوئی شک نہیں تم بھی جنتی ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمیر نے سرکار دو عالم ﷺ کی زبان مبارک سے یہ بشارت سن کر اپنے ترکش سے کچھ کھجوریں نکالیں اور ان کو کھانا شروع کیا اور پھر کہنے لگے کہ اگر میں ان (ساری کھجوروں کو کھانے تک زندہ رہا تو زندگی طویل ہوگی چناچہ انہوں نے ان کھجوروں کو جو ان کے پاس تھیں پھینک دیا اور کفار سے لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ (مسلم)

تشریح
جنت کے راستے پر کھڑے ہوجاؤ کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کی راہ کو اختیار کرو جو جنت میں لے جانے کا باعث ہے۔ اور وہ جہاد ہے۔ جس کا عرض زمین و آسمان کے عرض کے برابر ہے اس ارشاد کے ذریعہ درحقیقت جنت کی وسعت و کشادگی کو بیان کرنا ہے چناچہ اس مقصد کے لئے ایسی چیز (یعنی زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے) کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس سے زیادہ وسیع و عریض چیز انسان کے فہم میں اور کوئی نہیں آسکتی، نیز اس ارشاد میں صرف عرض کو ذکر کیا گیا ہے طول کو بیان نہیں کیا گیا تاکہ انسانی فہم خود اندازہ کرلے کہ جس چیز کا عرض اتنا ہے اس کے طول کا کیا حال ہوگا۔ تم نے خوب خوب کیوں کہا گویا آنحضرت ﷺ نے یہ خیال فرمایا کہ عمیر نے جو یہ الفاظ کہے ہیں وہ بغیر کسی نیت و ارادہ کے اور بغیر سوچے سمجھے ان کی زبان سے ادا ہوئے ہیں جیسا کہ اس قسم کے الفاظ یا تو اس شخص کی زبان سے صادر ہوتے ہیں جو کسی کی کسی بات پر اپنے ہزل و مزاح اور استہزاء کا اظہار کرتا ہے۔ یا اپنے قتل کے خوف میں مبتلا ہوتا ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے جب عمیر سے ان الفاظ کی وضاحت طلب کی تو انہوں نے ان دونوں باتوں سے انکار کیا اور اللہ کی قسم کھا کر اپنا اصل مطلب بیان کیا۔ تو زندگی طویل ہوگی۔ سے حضرت عمیر کی مراد یہ تھی کہ اگر میں ساری کھجوریں کھانے کا انتظار کروں اور جب تک جیوں تو زندگی طویل ہوجائے گی۔ جب کہ آرزو یہ ہے کہ اب ایک منٹ گنوائے بغیر اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دوں اور شہادت کا مرتبہ حاصل کر کے جنت کی راہ پکڑ لوں۔ گویا انہوں نے حصول شہادت کی شوق کی وجہ سے اپنی زندگی کو اور کفار سے نبرد آزمائی میں تاخیر کو اپنے حق میں وبال جانا۔
Top