مشکوٰۃ المصابیح - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 3718
جہاد کا بیان
جہاد کے معنی جہد اور جہاد کے لغوی معنی ہیں مشقت اٹھانا اور طاقت سے زیادہ بوجھ لادنا امام راغب نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ (الجہاد استفراغ الوسع فی مدافعۃ العدو )۔ جہاد کا مطلب ہے، انتہائی قوت سے حملہ آور دشمن کی مدافعت کرنا۔ اصطلاح شریعت میں جہاد کا مفہوم ہے۔ کفار کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ میں اپنی طاقت خرچ کرنا بایں طور کہ خواہ اپنی جان کو پیش کیا جائے یا اپنے مال کے ذریعہ مدد کی جائے اور خواہ اپنی عقل و تدبیر (یعنی اپنی رائے اور مشوروں کا) تعاون دیا جائے یا محض اسلامی لشکر میں شامل ہو کر اس کی نفری میں اضافہ کیا جائے اور یا ان کے علاوہ کسی بھی طریقے سے دشمنان اسلام کے مقابلے میں اسلامی لشکر کی معاونت و حمایت کی جائے۔ جہاد کا نصب العین جہاد کا نصب العین یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا بول بالا رہے، اللہ کی اس سر زمین پر اس کا جھنڈا سربلند اور اس کے باغی منکروں کا دعوی سرنگوں رہے۔ جہاد کا حکم جہاد فرض کفایہ ہے۔ اگر نفیر عام (اعلان جنگ) نہ ہو اور اگر نفیر عام ہو بایں طور کہ کفار مسلمانوں کے کسی شہر پر ٹوٹ پڑیں یا اسلامی مملکت کے خلاف جنگ شروع کردیں اور مسلمانوں کی طرف سے جنگ کا عام اعلان کردیا جائے تو اس صورت میں ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہوگا خواہ نفیر کرنے والا (یعنی اعلان جنگ کرنے والا عادل ہو یا فاسق، لہٰذا اس صورت میں دشمنوں کا مقابلہ کرنا جہاد میں شرکت کرنا اس شہر اور اس مملکت کے تمام باشندوں پر واجب ہوگا اور ایسے ہی ان لوگوں پر بھی واجب ہوگا جو اس شہر یا مملکت کے قریب رہتے ہوں بشرطیکہ اس شہر یا مملکت کے رہنے والے اپنے شہر اور اپنے ملک کی حفاظت اور دشمنوں کے مقابلہ کرنے کے لئے کافی نہ ہوں یا وہ اپنی جنگی ودفاعی ذمہ داریوں کو انجام دینے میں کسل وسستی کریں اور گنہگار ہوں چناچہ جس طرح میت کا مسئلہ ہے کہ اس کی تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ پہلے اس کے اہل محلہ پر واجب ہے اگر وہ اس کی انجام دہی سے عاجز ہوں تو پھر یہ چیزیں اس کے شہر والوں پر واجب ہوں گی اسی طرح جہاد کا بھی مسئلہ کہ جس شہر ملک کے مسلمانوں کو کفار اور دشمنان دین کی جارحیت اور جنگی حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو اگر وہ اپنے دفاع سے عاجز ہوں اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں کوتاہ یا ناکام رہے ہوں تو اس وقت ان کے پڑوسی شہر و ملک کے مسلمانوں بلکہ ما بین المشرق والمغرب کے تمام مسلمانوں پر واجب ہوگا کہ وہ جہاد میں شریک ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے وقار کا تحفظ اور دشمنان دین کا دعوی سرنگوں کریں۔
Top