مشکوٰۃ المصابیح - جنگ کرنے کا بیان - حدیث نمبر 5338
وعن صالح بن درهم يقول انطلقنا حاجين فإذا رجل فقال لنا إلى جنبكم قرية يقال لها الأبلة ؟ قلنا نعم . قال من يضمن لي منكم أن يصلي لي في مسجد العشار ركعتين أو أربعا ويقول هذه لأبي هريرة ؟ سمعت خليلي أبا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول إن الله عز وجل يبعث من مسجد العشار يوم القيامة شهداء لا يقوم مع شهداء بدر غيرهم . رواه أبو داود . وقال هذا المسجد مما يلي النهر . وسنذكر حديث أبي الدرداء إن فسطاط المسلمين في باب ذكر اليمن والشام . إن شاء الله تعالى
بصرہ کے ایک گاؤں کی مسجد کی فضیلت
حضرت صالح بن درہم تابعی (رح) کہتے ہیں کہ ہم حج کے لئے بصرہ سے مکہ گئے تو وہاں کسی جگہ ایک شخص (یعنی حضرت ابوہریرہ ؓ کو کھڑے دیکھا، انہوں نے ہم سے پوچھا کہ کیا تمہارے شہر کے نواح میں ایک بستی ہے جس کو ابلہ کہا جاتا ہے ہم نے کہا کہ ہاں ہے انہوں نے کہا کہ تم میں سے کون شخص اس کا ذمہ لیتا ہے کہ وہ میری طرف سے مسجد عشار میں دو رکعت بلکہ چار رکعت نماز پڑھے اور یہ کہے کہ اس نماز کا ثواب ابوہریرہ ؓ کو پہنچے میں نے اپنے خلیل صادق ابوالقاسم حضرت محمد ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ مسجد عشار سے قیامت کے دن شہداء کو اٹھائے گا اور بدر کے شہداء کے ساتھ ان شہداء کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا۔ قیامت کے دن بدر کے شہداء کے ساتھ جو شہداء اپنی اپنی قبر سے اٹھیں گے وہ اسی مسجد کے شہداء ہوں گے، یا یہ کہ قیامت کے دن مرتبہ کے اعتبار سے شہداء بدر کے ہمسر ان شہداء کے علاوہ اور کوئی شہید نہیں ہوگا۔ اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ مسجد بصرہ کے اس نواحی حصے میں ہے جو دریائے فرات کی طرف ہے اور حضرت ابودرداء ؓ کی حدیث ان فسطاط المسلمین الخ کو ہم انشاء اللہ یمن وشام کے ذکر کے بیان میں نقل کریں گے۔

تشریح
ابلہ ایک مشہور بستی کا نام ہے جو بصرہ کے قریب واقع ہے، عشار، ایک مسجد کا نام ہے جو ابلہ میں ہے، حصول برکت وسعادت کی خاطر لوگ اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں۔ مسجد عشار کے شہداء کے بارے میں یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ آیا ان شہداء کا تعلق کسی گزشتہ امت کے لوگوں سے ہے یا اسی امت کے لوگوں سے؟ بہرحال اس حدیث سے ان شہداء کی عظمت و فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ بدر کے شہیدوں کے ہم پلہ وہم رتبہ ہیں، پس معلوم ہوا کہ جب وہ مسجد اس قدر شرف و فضیلت رکھتی ہے تو اس میں نماز پڑھنا یقینا بہت بڑی فضیلت اور بہت بڑے ثواب کی بات ہے۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدنی عبادت جیسے نماز روزہ کا ثواب کسی کو بخشنا جائز ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ اور وہ ثواب اس کو پہنچتا ہے، چناچہ اکثر علماء کا مسلک یہی ہے، ویسے مالی عبادت جیسے صدقہ و خیرات وغیر کا ثواب بخشنا تو تمام ہی علماء کے نزدیک جائز ہے۔
Top