مشکوٰۃ المصابیح - جنگ کرنے کا بیان - حدیث نمبر 5324
وعن عوف بن مالك قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك وهو في قبة من أدم فقال اعدد ستا بين يدي الساعة موتي ثم فتح بيت المقدس ثم موتان يأخذ فيكم كقعاص الغنم ثم استفاضة المال حتى يعطى الرجل مائة دينار فيظل ساخطا ثم فتنة لا يبقى بيت من العرب إلا دخلته ثم هدنة تكون بينكم وبين بني الأصفر فيغدرون فيأتونكم تحت ثمانين غاية تحت كل غاية اثنا عشر ألفا
وہ چھ چیزیں جن کا قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونا ضروری ہے
حضرت عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دوران ایک دن میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ ﷺ چمڑے کے خیمے میں تشریف رکھتے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا تم قیامت آنے سے پہلے چھ چیزوں کو شمار کرو یعنی ان چھ چیزوں کو قیامت کی علامتوں سے جانو کہ قیامت آنے سے پہلے یہ چھ چیزیں ضرور واقع ہوں گی ایک تو میری موت کہ جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں قیامت نہیں آئے گی دوسرے بیت المقدس کا فتح ہونا یعنی جب تک بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نہیں ہوجائے گا قیامت نہیں آئے گی۔ تیسرے عام وباء جو تم میں بکریوں کی بیماری کی طرح پھیلے گی، چوتھے لوگوں کے پاس مال و دولت کا اس قدر زیادہ ہونا کہ اگر ایک آدمی کو سو دینار بھی دئیے جائیں گے تو ان کو حقیر وکمتر جانے گا اور اس پر ناراض ہوگا یعنی مال و دولت کی اس قدر ریل پیل ہوگی کہ کسی کی نظر میں بڑی سے بڑی رقم کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ چناچہ حضور ﷺ کی یہ پیش گوئی حضرت عثمان غنی ؓ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب کہ مسلمانوں میں مال و دولت کی زبردست ریل پیل ہوگئی تھی۔ پانچویں فتنے اور آپس کی مخاصمت و مخالفت کا اس طرح پھوٹ پڑنا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہیں بچے گا جس میں اس فتنے کے برے اثرات نہ پہنچیں، (علماء نے لکھا ہے کہ اس پیش گوئی کا مصداق حضرت عثمان ؓ کا سانحہ شہادت ہے یا فتنہ سے مراد ہر وہ فتنہ اور برائی ہے جس کا ظہور حضور ﷺ کے بعد ہوا) اور چھٹے صلح جو تمہارے اور رومیوں کے درمیان ہوگی، پھر رومی عہد شکنی کریں گے اور تمہارے مقابلے کے اسی نشانوں کے تحت آئیں گے جن میں سے ہر نشان کے ماتحت بارہ ہزار آدمی ہوں گے۔ (بخاری)

تشریح
بیت المقدس میں مقدس کا لفظ میم کے زبر، قاف کے جزم اور دال کے زیر کے ساتھ، مجلس کے وزن پر مقدس ہے لیکن مشکوۃ کے ایک نسخے میں یہ لفظ میم کے پیش، قاف کے زبر اور دال کی تشدید کے ساتھ معظم کے وزن پر مقدس منقول ہے۔ قعاص مویشیوں کی ایک بیماری کو کہتے ہیں جو عام طور سے مویشی کے سینے میں ہوتی ہے اور اس کو فورا ہلاک کردیتی ہے۔ حضور ﷺ نے یہاں جس عام وباء کی پیش گوئی فرمائی اور اس کو بکریوں کی بیماری یعنی قعاص سے تشبیہ دی، اس سے مراد طاعون کی وہ وبا ہے جو حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانہ خلافت میں پیدا ہوئی اور اس کی وجہ سے صرف تین دن کے اندر ستر ہزار آدمی ہلاک ہوئے، اس وقت مسلمانوں کی فوجی چھاؤنی عمو اس میں تھی جو بیت المقدس کے قریب واقع ایک جگہ ہے، اسی مناسبت سے اس وباء کو طاعون عمو اس کہا جاتا ہے، یہ پہلا طاعون تھا جو اسلام کے زمانہ میں پھوٹا اور اس کے سبب اتنا سخت جانی نقصان ہوا۔ بنی الاصفر رومیوں کو کہا جاتا تھا کیونکہ یہ لوگ جس نسل سے تعلق رکھتے تھے اس کے مورث اعلیٰ روم بن عیص بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) کا رنگ زرد و مائل بسفیدی تھا اور یہی جسمانی رنگت عام طور سے پوری قوم میں پائی جاتی تھی۔ غایۃ اس نشان یا جھنڈے کو کہتے ہیں جو فوجی سرداروں کے ساتھ ان کے دستوں اور لشکروں کی علامت کے طور پر ہوتا ہے اور بعض روایتوں میں یہ لفظ ی کے بجائے ب کے ساتھ یعنی غابۃ منقول ہے جس کے معنی جنگل اور درختوں کے جھنڈ کے ہیں اس صورت میں کہا جائے گا کہ نشان اور جھنڈوں کی کثرت کی وجہ سے اس لشکر کو درختوں کے جھنڈ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور لشکر والوں کی تعداد ذکر کرنے کا مقصد لاؤ لشکر کی زیادتی بیان کرنا ہے
Top