مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1566
وعن ابن عباس قال : من السنة تخفيف الجلوس وقلة الصخب في العيادة عند المريض قال : وقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لما كثر لغطهم واختلافهم : قوموا عني رواه رزين
مریض کے پاس غل غپاڑہ نہ مچانا چاہئے
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ عیادت کے وقت مریض کے پاس کم بیٹھنا اور شور و غوغا نہ کرنا سنت ہے۔ نیز حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس وقت جب کہ صحابہ ؓ میں شور و غوغا اور اختلاف زیادہ ہوا تو فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو۔ (رزین)

تشریح
حضرت ابن عباس ؓ کے ارشاد سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ عیادت کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ مریض کے پاس عیادت کے وقت صرف اتنا عرصہ کے لئے بیٹھنا چاہئے جس میں بیمار کی مزاج پرسی اور اس کے حالات و کیفیات کا علم ہوجائے۔ گویا اس کے پاس خواہ مخواہ کے لئے زیادہ دیر تک بیٹھ کر بیمار کے مزاج پر بوجھ نہ بننا چاہئے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بیمار کے پاس بیٹھ کر غل غپارہ مچانا اور شور و غوغا کرنا مکروہ ہے۔ روایت کے دوسرے جزو کی تفصیل حضرت ابن عباس ہی کی روایت کی روشنی میں جو بخاروی و مسلم میں مروی ہے یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب مرض میں مبتلا ہوئے اور وصال کا وقت قریب آیا تو اس موقع پر جب کہ آپ کے پاس بہت زیادہ لوگ جمع تھے جن میں حضرت عمر ؓ بھی تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوات قلم لاؤ میں تمہارے لئے ایک وصیت نامہ لکھ دیتا ہوں تاکہ تم میرے بعد گمراہی میں مبتلا نہ ہو سکو! (یہ سن کر حاضرین کو مخاطب کر کے) حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ (معلوم ہوتا ہے کہ) اس وقت آنحضرت ﷺ پر شدت مرض غالب ہے اسی لئے آپ ﷺ وصیت نامہ لکھنے کے لئے فرما رہے ہیں ورنہ تو وصیت نامہ کی کیا ضرورت ہے کیونکہ تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور کتاب اللہ تمہارے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد اہل بیت اور دوسرے لوگوں نے بھی اپنی اپنی بات کہنی شروع کردی کوئی تو کہتا تھا کہ قلم و دوات لا دینا چاہئے تاکہ آنحضرت ﷺ تمہارے لئے وصیت نامہ لکھ دیں بعض لوگ حضرت عمر ؓ کی تائید کر رہے تھے۔ غرض اس معاملہ میں جب بحث مباحثہ زیادہ بڑھا اور لوگوں کے اظہار رائے نے شور و غوغا کی صورت اختیار کرلی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم سب لوگ میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو۔ اس صورت واقعہ سے روافض یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اس وصیت نامہ میں خلافت کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے (مثلاً یہ کہ میرے بعد خلیفہ اول علی ؓ ہوں) مگر حضرت عمر نے آپ کو اس سے روک دیا۔ علامہ ابن حجر (رح) نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ روافض کا یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کیونکہ اس واقعہ کی حقیقت تو یہ تھی کہ گویا آنحضرت ﷺ نے جب وصیت نامہ لکھنے کا رادہ فرمایا اور حاضرین میں اختلاف پیدا ہوا تو آنحضرت ﷺ کے دل میں یہ بات آئی کہ مصلحت یہی ہے کہ کوئی وصیت نامہ نہ لکھا جائے۔ چناچہ آپ نے حضرت عمر ؓ کے کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے اختیار سے صرف یہ کہ اس وقت وصیت نامہ نہیں لکھا بلکہ لکھنے کا ارادہ بھی ترک فرما دیا کیونکہ اگر آنحضرت ﷺ نے کسی چیز کے لکھنے کا مصمم ارادہ فرما لیا ہوتا تو حضرت عمر وغیرہ کی کیا مجال تھی کہ آپ ﷺ کے اس فیصلہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے، چناچہ آنحضرت ﷺ اس واقعہ کے بعد تین دن تک زندہ رہے اور ان ایام میں آپ ﷺ کے پاس حضرت عمر اور دوسرے صحابہ موجود نہیں تھے بلکہ اہل بیت مثلاً حضرت علی اور حضرت عباس ؓ وغیر ہما بارگاہ رسالت میں حاضر رہے اگر آپ اس موقع پر خلافت کے بارے میں کوئی وصیت نامہ لکھنے ہی میں مصلحت سمجھتے تو ضرور لکھتے۔ پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے خلافت کے بارے میں ایسا طریقہ اختیار فرمایا جس میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش ہی نہ رہی تھی آپ ﷺ نے اپنے آخری ایام میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو نماز میں لوگوں کا امام مقرر فرمایا۔ اسی وجہ سے حضرت علی ؓ نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے واسطے لوگوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر کو ہمارے دین کے لئے امام منتخب فرمایا یعنی نماز میں ہمارا امام مقرر فرما دیا تو کیا ہم انہیں اپنی دنیا کے لئے یعنی خلافت کے لئے منتخب نہ کریں؟ آنحضرت ﷺ نے جب حضرت ابوبکر کو نماز میں لوگوں کا امام بننے کے لئے بلا بھیجا تو اس وقت میں آپ ﷺ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا اور آپ مجھے دیکھ رہے تھے (مگر آپ نے مجھے امام مقرر نہیں فرمایا) حضرت ابوبکر ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ کہ آیت (لایخافون لومۃ لائم)۔ (یعنی یہ لوگ ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے)۔ منقول ہے کہ ابوسفیان بن حرب نے (جب ایک موقع پر) حضرت علی ؓ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں ابوبکر سے لڑائی کے لئے مدینہ کا میدان گھوڑوں اور پیادوں سے بھر دوں (تو حضرت علی) ابوسفیان کی اس بات سے بہت ناراض ہوئے اور انہیں ڈانٹا اور بہت برا بھلا کہا تاکہ نہ صرف ابوسفیان بلکہ دوسرے لوگ بھی جان لیں کہ ابوبکر کی خلافت منشاء نبوت کے مطابق ہونے کی وجہ سے اتنی مستحکم اور حقیقی ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو اس وقت آنحضرت ﷺ ہی نے حضرت علی ؓ کی خلافت کے بارے میں کچھ لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا اور نہ خود حضرت علی ؓ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں حضرت ابوبکر ؓ سے مقدم ہوں اور خلافت میرا حق ہے کیونکہ حضرت علی اگر حضرت ابوبکر پر فضیلت رکھتے اور خلافت پہلے ان کا حق ہوتا تو آنحضرت ﷺ اس کی ضرور وصیت کرتے۔ چہ جائیکہ آپ ﷺ نے اس کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں فرمایا جب کہ حضرت ابوبکر کو نماز میں لوگوں کا امام مقرر فرما کر اس طرف کھلا ہوا اشارہ فرما دیا تھا کہ میرے بعد ابوبکر ہی خلیفہ ہونگے۔
Top