مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1523
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الشهداء خمسة المطعون والمبطون والغريق وصاحب الهدم والشهيد في سبيل الله
شہید کا ثواب پانے والے
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شہداء پانچ ہیں (١) طاعون زدہ (٢) پیٹ کی بیماری (یعنی دست اور استسقاء میں مرنے والا (٣) پانی میں بےاختیار ڈوب کر مرجانے والا (٤) دیوار یا چھت کے نیچے دب کر مرجانے والا۔ (٥) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
پانی میں ڈوب کر مرجانے والے۔ اس شخص کو شہادت کا ثواب ملے گا جو بےاختیار و بلا قصد پانی میں ڈوب گیا ہو یعنی بارادہ خود پانی میں نہ ڈوبے۔ اس طرح اگر دریا میں کشتی ڈوب جائے یا ٹوٹ جائے تو سب لوگ یا کچھ لوگ دریا میں ڈوب جائیں تو ان میں سے اسی ڈوبنے والے کو شہادت کا ثواب ملے گا جو کسی گناہ و معصیت کے ارادہ سے کشتی میں نہ بیٹھا ہو۔ اس حدیث میں پانچ قسم کے شہیدوں کا تذکرہ کیا گیا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حقیقی شہید صرف وہی شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔ شہیدوں کی دیگر قسمیں حکمی ہیں یعنی وہ مرنے والے حقیقی شہید تو نہیں ہوتے ہاں اس کی بےکسی و بےبسی کی موت کی بناء پر انہیں شہادت کا ثواب ملتا ہے۔ اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہاں اس حدیث میں چار قسم کے حکمی شہیدوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ حکمی شہیدوں کی اور بھی بہت زیادہ قسمیں جن کے بارے میں دیگر مشہور احادیث میں ذکر کیا گیا۔ چناچہ بعض علماء مثلاً سیوطی (رح) وغیرہ نے ان کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔ اس حدیث میں جو شہداء حکمی ذکر کئے گئے ہیں ان کے علاوہ دوسرے حکمی شہداء یہ ہیں۔ ذات الجنب (یعنی نمونیہ کی بیماری) میں مرنے والا، جل کر مرجانے والا، حالت حمل میں مرجانے والی عورت یا باکرہ مرجانے والی عورت، وہ عورت جو حاملہ ہونے کے بعد سے بچہ کی پیدائش تک یا بچہ کا دودھ چھٹانے تک مرجائے، سل یعنی دق کے مرض میں مرنے والا، حالت سفر میں مرنے والا، سفر جہاد میں سواری سے گر کر مرجانے والا، مرابط یعنی اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظ کے دوران مرجانے والا، گڑھے میں گر کر مرجانے والا، درندوں یعنی شیر وغیرہ کا لقمہ بن جانے والا اپنے مال اپنے اہل و عیال اپنے دین اپنے خون اور حق کی خاطر قتل کیا جانے والا، دوران جہاد اپنی موت مرجانے والا اور وہ شخص جسے شہادت کی پر خلوص تمنا اور لگن ہو مگر شہادت کا موقع اسے نصیب نہ ہو اور اس کا وقت پورا ہوجائے اور شہادت کی تمنا دل میں لئے دنیا سے رخصت ہوجائے۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ جس شخص کو حاکم وقت ظلم و تشدد کے طور پر قید خانہ میں ڈال دے اور وہ وہیں مرجائے تو وہ شہید ہے جو شخص مظلومانہ طریقہ پر زد و کو ب کیا جائے اور وہ زد و کو ب کے نتیجے میں بعد میں مرجائے تو وہ شہید ہے اور جو شخص توحید کی گواہی دیتے ہوئے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دے تو وہ شہید ہے۔ حضرت انس ؓ سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ تپ (بخار) شہادت ہے، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ روایت کرتے ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! شہداء میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بافضلیت شہید کون ہے آپ نے فرمایا کہ وہ شخص جو ظالم حاکم کے سامنے کھڑے ہو کر اسے اچھا اور نیک کام کرنے کا حکم دے اور برے کام سے روکے اور وہ حاکم اس شخص کو مار ڈالے۔ حضرت ابوموسیٰ ؓ سے مروی ہے کہ جس شخص کو گھوڑا یا اونٹ کچل اور روند ڈالے اور وہ مرجائے یا زہریلے جانور کے کاٹنے سے مرجائے تو شہید ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جس شخص کو کسی سے عشق ہوگیا اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے عشق میں پاکباز و متقی رہا بلکہ اس نے اپنے عشق کو چھپایا بھی اور اسی حال میں اس کا انتقال ہوگیا تو وہ شہید ہے۔ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ جو شخص کشتی میں بیٹھا ہوا درد سر اور قے میں مبتلا ہو تو اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لئے غیرت و خود داری لازم رکھی ہے اور مردوں کے لئے جہاد ضروری قرار دیا ہے لہٰذا عورت میں سے جس عورت نے اپنی سوکن کی موجودگی میں صبر و ضبط کے دامن کو پکڑے رکھا تو اسے شہید کا اجر ملے گا۔ حضرت عائشہ ؓ بطریق مرفوع روایت کرتی ہیں کہ جو شخص روزانہ دن میں پچیس مرتبہ یہ دعا (اللہم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت) پڑھے اور بستر مرگ پر اس کا انتقال ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کا ثواب عنایت فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جو شخص ضحی (یعنی اشراق و چاشت) کی نماز پڑھے اور مہینہ میں تین دن روزہ رکھے اور وتر کی نماز نہ حالت سفر میں چھوڑے نہ حالت قیام میں تو اس کے لئے شہید کا اجر لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح امت میں عوامی طور پر اعتقادی و عملی گمراہی کے وقت سنت پر مضبوطی سے قائم رہنے والا اور طلب علم میں مرنے و الا شہید ہے طلب علم میں مرنے والے سے وہ شخص مراد ہے جو حصول علم اور درس و تدریس میں مشغول ہو یا تصنیف و تالیف میں مصروف ہو اور یا محض کسی علمی مجلس میں حاضر ہو، جس شخص نے اپنی زندگی اس طرح گزار دی ہو کہ لوگوں کی مہمانداری و خاطر و تواضع اس کا شیوہ رہا ہو تو وہ شہید، مرتث یعنی وہ شخص جو میدان کارزار میں زخمی ہو کر فوراً نہ مرجائے بلکہ کم سے کم اتنی دیر تک زندہ رہے کہ دنیا کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے تو وہ بھی شہید ہے۔ جو شخص مسلمانوں تک غلہ پہنچائے اور جو شخص اپنے اہل و عیال اور اپنے غلام و لونڈی کے لئے کمائے وہ شہید ہے۔ ایسے وہ جنبی جسے کافر میدان کارزار میں مار ڈالیں اور شریق یعنی وہ شخص جو گلے میں پانی پھنس جانے اور دم گھٹ جانے کی وجہ سے مرجائے وہ شہید ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو مسلمان اپنے مرض میں حضرت یونس (علیہ السلام) کی یہ دعا (لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) چالیس مرتبہ پڑھے اور اسی مرض میں انتقال کرے تو اسے شہید کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر اس مرض سے اسے چھٹکارا مل جائے تو وہ اسحال میں صحت مند ہوتا ہے کہ اس کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ سچا اور امانتدار تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہوگا اور جو شخص جمعہ کی شب میں مرتا ہے وہ شہید ہے۔ نیز حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ بلا اجرت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اذان دینے والا مؤذن اس شہید کی مانند ہے جو اپنے خون میں لت پت تڑپتا ہو، نیز وہ مؤذن جب مرتا ہے تو اس کی قبر میں کیڑے نہیں پڑتے۔ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔ جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو مرتبہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان براۃ یعنی نفاق اور آگ سے نجات لکھ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ رکھے گا۔ منقول ہے کہ جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم اور سورت حشر کی آخری تین آیتیں پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے اور اس کے لئے شام تک بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ اور وہ شخص اگر اس دن مرجاتا ہے تو اس کی موت شہید کی موت ہوتی ہے اور جو شخص یہ شام کو پڑھتا ہے وہ بھی اسی اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو وصیت کی کہ جب تم رات میں سونے کے لئے اپنے بستر پر جاؤ تو سورت حشر کی آخری آیتیں پڑھ لو اور فرمایا کہ اگر تم (رات میں یہ پڑھنے کے بعد سوئے اور اسی رات میں) مرگئے تو شہید کی موت پاؤ گے۔ منقول ہے کہ جو شخص مرگی کے مرض میں مرجاتا ہے وہ شہید ہوتا ہے، جو شخص حج اور عمرہ کے دوران مرتا ہے شہید ہوتا ہے جو شخص با وضو مرتا ہے شہید ہوتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینہ میں، بیت المقدس میں، مکہ یا مدینہ میں مرنے والا شخص شہید ہوتا ہے، دبلاہٹ کی بیماری میں مرنے و الا شخص شہید ہوتا ہے، جو شخص کسی آفت و بلا میں مبتلاء ہو اور وہ اسی حالت میں ضرر و بلا پر صبر و رضا کا دامن پکڑے ہوئے مرجائے تو شہید ہے۔ جو شخص صبح و شام مقالید السماوات والارض الخ جس کے پڑھنے کی فضیلت کا تذکرہ ایک حدیث میں کیا گیا ہے پڑھے تو وہ شہید ہے۔ منقول ہے کہ جو شخص نوے برس کی عمر میں یا آسیب زدہ ہو کر مرے یا اس حال میں مرے کہ اس کے ماں باپ اس سے خوش ہوں اور یا نیک بخت بیوی اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے خوش راضی ہو تو وہ شہید ہے۔ نیز وہ مسلمان بھی شہید ہے جو کسی ضعیف مسلمان کے ساتھ کلمہ خیر یا اس کی کسی طرح کی مدد کر کے بھلائی کا معاملہ کرے۔ واللہ اعلم۔
Top