مشکوٰۃ المصابیح - جمعہ کا بیان - حدیث نمبر 1382
وَعَنْ جَابِرٍص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ ےَخْطُبُ اِذَا جَآءَ اَحَدُکُمْ ےَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْاِمَامُ ےَخْطُبُ فَلْےَرْکَعْ رَکْعَتَےْنِ وَلْےَتَجَوَّزْ فِےْھِمَا۔مسلم
خطبہ کے وقت تحیۃ المسجد پڑھنے کا مسئلہ
اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہ جب تم میں سے کوئی آدمی جمعے کے روز (مسجد میں) آئے اور امام خطبہ پڑھ رہا ہو تو دو رکعتیں پڑھ لے مگر دونوں رکعتیں ہلکی (یعنی مختصر) پڑھے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت امام شافعی (رح) نے اس روایت کو تحیۃ المسجد پر محمول کیا ہے۔ ان کے نزدیک تحیۃ المسجد کی نماز واجب ہے اگرچہ امام خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔ یہی مسلک امام احمد کا بھی ہے۔ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو اپنی دلیل بناتے ہیں کہ تحیۃ المسجد واجب ہے جب ہی تو آپ ﷺ نے خطبہ کے دوران بھی اس کے پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ حنفیہ کے نزدیک تحیۃ المسجد جب کہ خطبے کے علاوہ دوسرے اوقات میں ہی واجب نہیں ہے تو خطبے کے دوران بطریق اولیٰ واجب نہیں ہوگی چناچہ حضرت امام مالک اور سفیان ثوری کا بھی یہی مسلک ہے۔ نیز جمہور صحابہ اور تابعین ان کے ہم نوا ہیں۔ ان حضرات کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہاں خطبے سے مراد خطبے کا ارادہ ہے یعنی آپ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ دو رکعتیں اس وقت بھی پڑھی جاسکتی ہیں جب کہ امام خطبے کے لئے اٹھ جائے اور خطبہ پڑھنے کا ارادہ کر رہا ہو نہ یہ کہ بالفعل خطبہ پڑھ ہی رہا ہو۔ اسی تاویل کی بنیاد وہ قرائن اور صحیح احادیث ہیں جن سے خطبہ کے وقت حرمت نماز ثابت ہوچکی ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ جب امام (خطبہ کے لئے) نکلے (یعنی خطبہ پڑھنے کے لئے منبر کی طرف چلے) تو اس وقت نہ بات چیت درست ہے اور نہ نماز ہی درست ہے نہ صرف یہ ارشاد نبوی ہے۔ بلکہ علی المرتضیٰ اور حضرت عمر ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بھی امام کے نکلنے کے بعد کلام اور نماز دونوں کو مکروہ جانتے تھے۔ لہٰذا قول صحابہ بھی حجت ہے اور ہمارے نزدیک اس کی تقلید واجب ہے اگر سنت سے منقول کوئی چیز اس کے معارض نہ ہو۔ اور بخاری و مسلم میں حضرت جابر ؓ سے جو یہ روایت متعدد طرق سے منقول ہے کہ ایک آدمی مسجد میں اس وقت داخل ہوا جب کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ ﷺ نے اس آدمی سے پوچھا کہ اے فلاں آدمی! تم نے (تحیۃ المسجد کی) نماز پڑھی ہے؟ اس نے عرض کیا ہم نہیں آپ نے اس سے فرمایا کہ دو رکعت، نماز پڑھ لو اور مختصر پڑھو تو اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا تھا جب کہ خطبے کے وقت نماز کی ممانعت نہیں ہوئی تھی، یا یہ کہ اجازت صرف اسی آدمی کے لئے مخصوص تھی، بعض حضرات کی تحقیق تو یہ ہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے خطبہ شروع کرنے سے پہلے پیش آیا تھا۔ حضرت شیخ ابن ہمام نے اس سلسلے میں جو بات فرمائی ہے وہ زیادہ مناسب ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اور ان احادیث میں جن سے خطبے کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوئی ہے کوئی معارضہ اور اختلاف ہی لازم نہیں آتا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جب یہ آدمی مسجد میں داخل ہوا اور آپ ﷺ نے اس سے نماز پڑھنے کے لئے فرمایا تو آپ نے خطبہ روک دیا ہوگا۔ جب وہ آدمی نماز سے فارغ ہوگیا ہوگا تب آپ ﷺ نے خطبہ مکمل فرمایا۔ حضرت ابن ہمام (رح) کی یہ بات محض قیاس اور تاویل کے درجے تک محدود نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صورت حال یہی ہوئی تھی چناچہ دارقطنی کی روایت نے بالکل واضح الفاظ میں یہ صراحت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ دو رکعت نماز پڑھو، پھر جب تک وہ آدمی نماز سے فارغ نہیں ہوا آپ ﷺ خاموش رہے (نماز سے فراغت کے بعد آپ نے پھر خطبہ مکمل فرمایا )
Top