مشکوٰۃ المصابیح - جمعہ کا بیان - حدیث نمبر 1367
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْضُرُا الْجُمُعَۃَ ثَلاثَۃُ نَفَرٍ فَرَجُلٌ حَضَرَھَا بِلَغْوٍ فَذَالِکَ حَظُّہ، مِنْھَا وَرَجُلٌ حَضَرَھَا بِدُعَاءٍ فَھُوَ رَجُلٌ دَعَا اﷲَ اِنْ شَاءَ اَعْطَاہُ وَاِنْ شَاءَ مَنَعَہ، وَرَجُلٌ حَضَرَھَا بِاِنْصَاتٍ وَسُکُوْتٍ وَلَمْ یَتَخَطَّ رَقَبَۃَ مُسْلِمٍ وَلَمْ یُؤْذِ اَحَدًا فَھِیَ کَفَّارَۃٌ اِلَی الْجُمُعَۃِ الَّتِی تَلِیْھَا وَزِیَادَۃُ ثَلاَ ثَۃِ اَیَّامٍ وَ ذَالِکَ بِاَنَّ اﷲُ یَقُوْلُ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ، عَشْرُ اَمْثَالِھَا۔ (رواہ ابوداؤد)
آداب جمعہ کی رعایت کرنے والے کے لئے خوشخبری
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جمعہ ( کی نماز) میں تین طرح کے لوگ آتے ہیں ایک وہ آدمی جو لغو کلام اور بیکار کام کے ساتھ آتا ہے (یعنی وہ خطبے کے وقت لغو بیہودہ کلام اور بیکار کام میں مشغول ہوتا ہے) چناچہ جمعے کی حاضری میں اس کا یہی حصہ ہے (یعنی وہ جمعے کے ثواب سے محروم رہتا ہے اور لغو کلام و فعل کا وبال اس کے حصے میں آتا ہے) دوسرا وہ آدمی ہے جو جمعے میں دعا کے لئے آتا ہے (چنانچہ وہ خطبے کے وقت دعا میں مشغول رہتا ہے یہاں تک کہ اس کی دعا اسے خطبے سننے یا خطبہ کے کمال ثواب سے باز رکھتی ہے) پس وہ دعا مانگتا ہے خواہ اللہ تعالیٰ (اپنے فضل و کرم کے صدقہ میں) اس کی دعا کو قبول فرمائے یا نہ قبول فرمائے تیسرا وہ آدمی جمعہ میں آتا ہے تو (اگر خطبہ کے وقت امام کے قریب ہوتا ہے تو خطبے سننے کے لئے) خاموش رہتا ہے اور (اگر امام سے دور ہوتا ہے اور خطبے کی آواز اس تک نہیں پہنچتی تب بھی خطبے کے احترام میں وہ) سکونت اختیار کرتا ہے نیز نہ تو وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہے اور نہ کسی کو ایذاء پہنچاتا ہے لہٰذا اس کے واسطے یہ جمعہ اس (یعنی پہلے) جمعے تک جو اس سے ملا ہوا بلکہ اور تین دن زیادہ تک کا کفارہ ہوجائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ عَشَر اَمْثَالِھَا یعنی جو ایک نیکی کرے گا۔ اس کو نیکی کا دس گناہ ثواب دیا جائے گا۔ (ابوداؤد)

تشریح
ان شاء اعطاہ وان شاء منعہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آدمی چونکہ خلاف ادب اور خلاف حکم اس وقت دعا میں مشغول رہتا ہے اس لئے اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو محض اپنے فضل و کرم کے صدقے اس کی دعا کو قبول فرما لے گا ورنہ از راہ عدل اس کے اس فعل بد کی وجہ سے کہ وہ دعا میں مشغول رہ کر خطبہ سننے سے غافل رہا اس کی دعا قبول نہیں فرمائے گا۔ خطبے کے وقت دعا میں مشغول ہونا حنفیہ کے نزدیک مکروہ ہے جب کہ دوسرے علماء کے ہاں حرام ہے مشکوٰۃ کے ایک دوسرے نسخے میں لفظ بَلَغُوْا صیغہ مضارع کے ساتھ نقل کیا گیا ہے لیکن صحیح بلغو جیسا کہ یہاں نقل کیا گیا ہے کیونکہ یہ اگلے جملوں کے مطابق ہے۔ ولم یوذ احد کا مطلب یہ ہے کہ مسجد میں آکر اس نے کسی آدمی کو ایذاء اور تکلیف نہیں پہنچائی بایں طور کہ مثلاً نہ تو کسی کو اس کی جگہ سے اٹھایا نہ کسی دوسرے کے جسم کے کسی عضو پر چڑھ کر بیٹھایا اسی طرح نہ تو کسی کے مصلیٰ پر اس کی مرضی کے بغیر بیٹھا اور نہ لہسن و پیاز جیسی اشیاء کی بدبو سے کسی کو تکلیف پہنچائی۔
Top