مشکوٰۃ المصابیح - جمعہ کا بیان - حدیث نمبر 1340
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّہ، قَرَأ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اَلْاٰیَۃَ وَعِنْدَہ، یَھُوْدِیٌ قَالَ لَوْنَزَلَتْ ھٰذِہٖ الْاَیَۃُ عَلَیْنَا لَاَ تَّخَذْنَا ھَا عِیْدًا فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَاِنَّھَا نَزَلَتْ فِی یَوْمِ عِیْدَیْنِ فِی یَوْمِ جُمُعَۃَ وَیَوْمِ عَرَفَۃَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ۔
جمعہ مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے
اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے (ایک دن) یہ آیت پڑھی آیت (اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ) 5۔ المائدہ 3) جس کا مضمون یہ ہے کہ آج کے دن ہم نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا تمہارے اوپر اپنی تمام نعمتیں پوری کردیں اور ہم نے تمہارے لئے از روئے دین اسلام کو پسند کیا ہے) ان کے پاس (اس وقت) ایک یہودی (بیٹھا ہوا) تھا اس نے ( عبداللہ ابن عباس ؓ سے یہ آیت سن کر) کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کو (یعنی اس دن کو جس میں یہ آیت نازل ہوئی تھی) عید قرار دیتے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ آیت دو عیدوں کے دن یعنی حجۃ الوداع کے موقع پر جمعہ اور عرفہ کے دن نازل ہوئی ہے امام ترمذی (رح) نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تشریح
یہودی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو اتنی عظیم الشان نعمت کی خوشی اور اس کے شکرانے کے طور پر ہم اس کو بڑی عید کا دن مناتے۔ مگر تعجب ہے کہ مسلمانوں نے اس دن کو یادگار اور عید کا دن قرار نہیں دیا؟ اس کے جواب میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ خود ہی اس آیت کو ایک ایسے دن نازل فرمایا جو ایک نہیں دو عیدوں پر حاوی تھا تو پھر ہمیں اس دن کو یادگار دن قرار دینے کی کیا ضرورت تھی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جو آخری حج ادا فرمایا تھا وہ جمعے کا دن تھا۔ گویا ایک تو جمعہ ہونے کی وجہ سے خود وہ دن افضل و اشرف تھا مزید یہ کہ وہ دن عرفہ (یعنی حج) ہونے کے سبب سے اس کی فضیلت و عظمت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا اور اسی دن یہ آیت نازل ہوئی اور ظاہر ہے کہ اپنی عظمت و فضیلت کے اعتبار سے مسلمانوں کے لئے اس سے بڑا عید کا دن اور کون سا ہوسکتا ہے۔
Top