مشکوٰۃ المصابیح - جمعہ کا بیان - حدیث نمبر 1338
وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکْثِرُوْ الصَّلَاۃَ عَلَیَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہُ مَشْھُوْدٌ یَشْھَدُہُ الْمَلَائِکَۃُ وَاِنَّ اَحَدًا لَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ اِلَّا عُرْضَتْ عَلَیَّ صَلَا تُہ، حَتّٰی یَفْرُغَ مِنْھَا قَالَ قُلْتُ وَبَعْدَ الْمَوْتِ قَالَ اِنَّ اﷲَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الاَنْبِیَاءِ فَنَبِیُّ اﷲِ حَیٌّ یُرْزَقُ۔(رواہ ابن ماجۃ)
جمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ پر کثرت سے دورود بھیجنا چاہیے
اور حضرت ابودرداء راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جمعے کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجو کیونکہ جمعے کا دن مشہود (یعنی حاضر کیا گیا ہے) اس دن ملائکہ حاضر ہوتے ہیں اور جو آدمی بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کا درود میرے سامنے (بذریعہ مکاشفہ یا بذریعہ ملائکہ) پیش کیا جاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہوتا ہے۔ ابودرداء کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر) عرض کیا کہ مرنے کے بعد بھی درود آپ ﷺ کے سامنے پیش کئے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجسام کا کھانا حرام کیا ہے چناچہ اللہ کے نبی (اپنی اپنی قبر میں بالکل دنیا کی حقیقی زندگی کی طرح) زندہ ہیں اور رزق دئیے جاتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)

تشریح
یہ حدیث حضرت عبداللہ ابن عباس کی تفسیر کی تائید کرتی ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ میں (وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ۔ وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ۔ ) 85۔ البروج 2) میں مشھود سے مراد جمعے کا دن ہے جب کہ پہلے گزرنے والی حدیث نمبر ٨ حضرت علی المرتضیٰ کی تفسیر کی موید ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ شاہد سے مراد جمعے کا دن ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ اگرچہ یہاں بھی مشہود سے یوم جمعہ مراد لینا بایں اعتبار کہ اسی دن ملائکہ حاضر ہوتے ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ کی تفیسر کے منافی نہیں ہے تاہم یہ احتمال بھی قوی تر ہے کہ حدیث کے الفاظ میں فَاِنَّہ کی ضمیر جمعے کی طرف نہیں بلکہ کثرت درود کی طرف راجع ہے جو کہ لفظ اکثروا سے مفہوم ہوتا ہے اس طرح حدیث کے معنی یہ ہوں گے جمعے کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجو کیونکہ کثرت درود مشہودہ (یعنی فرشتوں کے حاضر ہونے کا سبب) ہے۔ عُرِضَتْ صَلٰوتُہ کا مطلب یہ ہے کہ یوں تو ہمیشہ ہی جب مجھ پر کوئی آدمی درود بھیجتا ہے تو اس کا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے مگر جمعہ کا دن چونکہ سب سے افضل دن ہے اس لئے جمعہ کے دن بھیجاجانے والا درود بطریق اولیٰ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے اگرچہ درود بھیجنے کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو چناچہ حَتَّی یَفْرُغَ فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ جب تک درود پڑھنے والا خود ہی فارغ نہ ہوجائے یا درود پڑھنا ترک نہ کر دے اس وقت تک پوری مدت کے درود برابر میرے سامنے پیش کئے جاتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد سن کر حضرت ابودرداء یہ سمجھے کہ شاید یہ حکم ظاہری حالت یعنی آپ ﷺ کی دنیاوی زندگی ہی سے متعلق ہے چناچہ انہوں نے آپ ﷺ سے اس بارے میں جب سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ زمین پر انبیاء کے اجسام کھانا حرام ہے یعنی جس طرح دوسرے مردوں کے جسم قبر میں فنا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح انبیاء کے جسم قبر میں فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنی اصلی حالت میں موجود رہتے ہیں اس لئے انبیاء کے لئے فنا حالت یعنی دنیا کی ظاہری زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح وہ یہاں ہیں اسی طرح وہاں ہیں اسی لئے کہا گیا ہے۔ اَوْلِیَا ءَ اللہ لَا یَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارْاِلَی دَارٍ۔ اللہ کے دوست اور حقیقی بندے مرتے نہیں وہ تو صرف ایک مکان سے دوسرے مکان کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ لہذا جس طرح یہاں دنیا کی زندگی میں میرے سامنے درود پیش کئے جاتے ہیں اسی طرح میری قبر میں بھی میرے سامنے درود پیش کئے جاتے رہیں گے۔ حدیث کے آخری الفاظ حتی یرزق کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کو اپنی اپنی قبروں میں حق تعالیٰ کی طرف سے معنوی رزق دیا جاتا ہے اور رزق سے اگر رزق حسی مراد لیا جائے تو یہ حقیقت کے منافی نہیں ہوگا بلکہ صحیح ہی ہوگا۔ کیونکہ جب شہداء کی ارواح کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جنت کے میوے کھاتی ہیں تو انبیاء شہداء سے بھی اشرف و اعلیٰ ہیں اس لئے ان کے لئے بھی یہ بات بطریق اولیٰ ثابت ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی قبروں میں رزق حسی دئیے جاتے ہوں
Top