مشکوٰۃ المصابیح - تیمم کا بیان - حدیث نمبر 500
وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ خَرَجَ رَجُلَانِ فِیْ سَفَرٍ فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ وَلَیْسَ مَعَھُمَا مَآءٌ فَتَیَمَّمَا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَصَلَّیَا ثُمَّ وَجَدَا الْمَا ۤءَ فِیْ الْوَقْتِ فَاَ عَادَاَ حَدُ ھُمَا الصَّلٰوۃَ بِوُضُوْءٍ وَلَمْ یُعِدِ الْاٰ خَرُثُمَّ اَتَیَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمفَزَکَرَا ذٰلِکَ فَقَالَ لِلَّذِیْ لَمْ یُعِدْ اَصَبْتَ السُّنَّۃَ وَاَجْزَأَتْکَ صَلاَ تُکَ وَقَالَ لِلَّذِیْ تَوَضَّأَ وَ اَعَادَلَکَ الْاَجْرُ مَرَّتَیْنِ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالدَّارِمِیُّ والنَّسَائِیُّ نَحْوَہ، وَ قَدْرَوٰی ھُوَ وَاَبُوْدَاؤَدَ اَیْضًا عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ مُرْسَلًا)
تیمم کا بیان
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ راوی ہیں کہ دو آدمی سفر کو روانہ ہوئے (اثنأ راہ میں) نماز کا وقت ہوا مگر ان کے پاس پانی نہیں تھا چناچہ دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی (آگے چل کر انہیں پانی مل گیا اور نماز کا وقت بھی باقی تھا لہٰذا ان میں سے ایک نے وضو کر کے نماز لوٹا لی مگر دوسرے نے نہیں لوٹائی۔ جب دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو یہ واقعہ ذکر کیا، رسول اللہ ﷺ نے (پورا وقعہ سن کر) اس آدمی سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا کہ تم نے سنت پر عمل کیا تمہارے لئے وہ نماز کافی ہے اور جس آدمی نے وضو کر کے نماز لوٹائی تھی آپ ﷺ نے اس سے فرمایا تمہارے لئے دو گنا اجر ہے۔ (ابوداؤد، دارمی) اور نسائی نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے اور نسائی و ابوداؤد نے عطا ابن یسار سے مرسلاً بھی نقل کی ہے۔

تشریح
پانی نہ ملنے کی صورت میں اگر نماز پڑھ لی جائے اور پھر پانی مل جائے اور نماز کا وقت بھی باقی ہو تو اس نماز کو لوٹانا ضروری نہیں ہے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا کہ تم نے سنت پر عمل کیا یعنی شریعت کا حکم چونکہ یہی ہے اس لئے تم نے شریعت کے حکم کی پابندی کی ہے کہ تیمم سے نماز پڑھ لینے کے بعد پانی ملنے کے باوجود تم نے نماز نہیں لوٹائی۔ دوسرے آدمی کو آپ ﷺ نے دوہرے ثواب کا مستحق قرار دیا کہ ایک ثواب تو ادائے فرض کا اور دوسرا ثواب ادائے نفل کا۔ اس مسئلے میں علماء کرام کا اتفاق ہے کہ تیمم کرنے والا نماز سے فارغ ہو کر اگر پانی دیکھے اور اسے پانی مل جائے تو اس پر نماز لوٹانا ضروری نہیں ہے خواہ نماز کا وقت باقی کیوں نہ ہو۔ لیکن صورت اگر یہ ہو کہ ایک آدمی تیمم کرنے کے بعد نماز پڑھنی شروع کر دے اور درمیان نماز سے پانی مل جائے تو اب وہ کیا کرے؟ آیا نماز ختم کر کے وضو کرلے اور پھر نماز پڑھے یا اپنی نماز تیمم ہی سے پوری کرلے؟ اس مسئلے پر علماء کرام کا اختلاف ہے؟ چناچہ جمہور یعنی اکثر علماء کا مسلک تو یہ ہے کہ اس آدمی کو اپنی نماز ختم نہیں کرنی چاہئے بلکہ وہ نماز پوری کرلے، اس کی نماز صحیح ہوگی۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد بن حنبل (رح) کا ایک قول یہ ہے کہ اس صورت میں اس آدمی کا تیمم باطل ہوجائے گا، گویا اسے نماز توڑ کر اور پانی سے وضو کر کے دوبارہ نماز شروع کرنی چاہئے۔
Top