مشکوٰۃ المصابیح - تیمم کا بیان - حدیث نمبر 496
وَعَنْ عَمَّارٍص قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلٰی عُمَرَ ص بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ اِنِّیْ اَجْنَبْتُ فَلَمْ اُصِبِ الْمَآءَ فَقَالَ عَمَّارٌ لِّعُمَرَص اَمَا تَذْکُراَنَّا کُنَّا فِیْ سَفَرٍ اَنَا وَاَنْتَ فَاَمَّا اَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَاَمَّا اَنَا فَتَمَعَّکْتُ فَصَلَّےْتُ فَذَکَرْتُ ذَالِکَ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اِنَّمَا کَانَ ےَکْفِےْکَ ھٰکَذَا فَضَرَبَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِکَفَّےْہِ الْاَرْضَ وَنَفَخَ فِےْھِمَا ثُمَّ مَسَحَ بِھِمَا وَجْھَہُ وَکَفَّےْہِ رَوَاہُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَّحْوَہُ وَفِےْہِ قَالَ اِنَّمَا ےَکْفِےْکَ اَنْ تَضْرِبَ بِےَدَےْکَ الْاَرْضَ ثُمَّ تَنْفُخُ ثُمَّ تَمْسَحُ بِھِمَا وَجْہَکَ وَکَفَّےْکَ۔
تیمم کا بیان
اور حضرت عمار ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کے مجھے نہانے کی ضرورت ہے اور پانی نہیں ملا (تو اب تیمم کروں یا کیا کروں؟ ) حضرت عمار ؓ (یہ سن کر) حضرت عمر ؓ سے بولے کیا تمہیں یاد نہیں رہا کہ میں اور تم سفر میں تھے اور ہم دونوں کو نہانے کی ضرورت ہوگئی تھی) تو تم نے نماز پڑھی تھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ کر نماز پڑھ لی تھی پھر میں نے رسول اللہ ﷺ سے صورت حال ذکر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اس طرح کرلینا کافی تھا، چناچہ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک مار کر (یعنی جھاڑ کر) ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کرلیا۔ (صحیح البخاری) اسی طرح مسلم نے روایت کی ہے (جس کے آخری الفاظ یہ ہیں ( آپ ﷺ نے فرمایا کہ) تمہارے لئے یہ کافی ہے کہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارو پھر ان میں پھونک مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کرو۔

تشریح
اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کا جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن حدیث کے بعض دوسرے طرق سے مذکور ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس آدمی کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ لا تصل یعنی جب تک پانی نہ ملے نماز نہ پڑھو! چناچہ حضرت عمر کا ؓ کا مسلک یہی تھا کہ جنبی کے لئے تیمم جائز نہیں ہے۔ یا یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مسئلہ پوچھنے والے کے سوال پر جو سکوت اختیار فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ جنبی کے لئے تیمم کا حکم ان کے ذہن میں نہیں رہا تھا۔ چناچہ حضرت عمار ؓ نے تمام واقعہ بیان کیا تاکہ حضرت عمر ؓ کے ذہن میں اس سے یہ بات پیدا ہوجائے کہ جنبی کے لئے تیمم جائز ہے حضرت عمار ؓ نے جو واقعہ بیان کیا اس میں حضرت عمر ؓ کے بارے میں جو یہ بتایا کہ انہوں نے غسل کے لئے پانی نہ ہونے کی وجہ سے حالت جنابت میں نماز نہیں پڑھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے یہ سوچا ہوگا کہ ہوسکتا ہے کہ نماز کے آخر وقت تک پانی مل جائے اس لئے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ پانی مل جانے کے بعد غسل کر کے ہی نماز پڑھی جائے یا پھر اس کی وجہ وہی ہوسکتی ہے کہ ان کے ذہن میں بات بیٹھی ہوئی تھی کہ تیمم تو صرف وضو کے قائم مقام ہے غسل کا قائم مقام نہیں ہے۔ ظاہری طور پر یہ وجہ قرین قیاس ہے ان کے اس اعتقاد کا سبب یہ تھا کہ چونکہ انہیں اس مسئلہ کی پوری حقیقت معلوم نہیں تھی پھر یہ کہ انہیں اس مسئلہ پر آنحضرت ﷺ سے کبھی سوال کا اتفاق بھی نہ ہوا تھا اس لئے وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ کہ تیمم صرف وضو کا قائم مقام ہے غسل کا نہیں ہے حالانکہ متفقہ طور پر سب ہی کے نزدیک تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہے اسی طرح غسل کا قائم مقام بھی ہے۔ حضرت عمار ؓ اپنے بارے میں بتا رہے ہیں اس موقع پر میں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا وہ یہ کہ میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوگیا اور اس کے بعد نماز پڑھ لی اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ذہن میں بھی یہ مسئلہ پوری وضاحت سے نہیں تھا اس لئے انہوں نے یہ قیاس کر کے جس طرح غسل میں پانی تمام اعضاء پر بہایا جاتا ہے اسی طرح مٹی بھی تمام اعضاء پر پہچانی چاہئے، مٹی میں لوٹ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمار ؓ کو تیمم کا طریقہ بتاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ہاتھوں پر پھونک مار کر اس پر لگی ہوئی مٹی کو اس لئے جھاڑا تاکہ مٹی منہ پر نہ لگے جس سے منہ کی ہیت بگڑ جائے کہ وہ مثلہ کہ حکم میں ہے جو ممنوع ہے۔ مثلہ اسے کہتے ہیں کہ بدن کے کسی عضو کو کاٹ کر یا ایسا کوئی طریقہ اختیار کر کے جس سے خلقی طور پر اعضاء میں فرق آجائے، اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑا جائے، لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے چہروں پر بھبھوت وغیرہ ملتے ہیں وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ تیمم کے لئے مٹی پر ایک مرتبہ ہاتھ مارنا کافی ہے جیسا کہ دوسرے حضرات کا یہی مسلک ہے مگر امام اعظم، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ تیمم کے لئے مٹی پر دو مرتبہ ہا تھے مارنا چاہئے ایک مرتبہ تو منہ پر پھیرنے کے لئے اور دوسری مرتبہ کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیرنے کے لئے اس لئے حضرت شیخ محی الدین نووی (رح) اس حدیث کی توجیہ یہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کا مقصد صرف یہ تھا کہ حضرت عمار ؓ کو مٹی پر ہاتھ مارنے کی کیفیت و صورت دکھا دیں کہ جنابت کے لئے تیمم اس طرح کرلیا کرو مٹی میں لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا چونکہ آپ ﷺ کا مقصد پورے تیمم کی کیفیت بیان کرنا نہیں تھا اس لئے حضرت عمار ؓ نے بھی روایت حدیث کے وقت ایک مرتبہ ہاتھ مارنے ہی کو بطور تعلیم ذکر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے علاوہ حضرت عمار ؓ سے جو روایتیں تیمم کے بارے میں منقول ہیں ان میں صراحت کے ساتھ دو مرتبہ ہی ہاتھ مارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ حدیث میں کفین سے ذراعین یعنی کہنیوں تک ہاتھ مراد ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک مسح کیا۔
Top