مشکوٰۃ المصابیح - تراویح کا بیان - حدیث نمبر 1297
عَنْ عَلِیٍّ قَالَ حَدَّثَنِی اَبُوْ بَکْرٍ وَ صَدَقَ اَبُوْبَکْرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَا مِنْ رَجُلٍ یُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ یَقُوْمُ فَیَتَطَھَّرُ ثُمَّ یُصَلَّیْ ثُمَّ یَسْتَغْفِرُ اﷲَ اِلَّا غَفَرَ اﷲُ ثُمَّ قَرَأَ وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُو اﷲَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ اِلَّا اَنَّ ابْنَ مَاجَۃَ لَمْ یَذْکُرِ الْآیَۃَ وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُواﷲَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ۔
نماز توبہ کا بیان
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مجھ سے فرمایا اور حضرت ابوبکر ؓ نے بالکل سچ فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد سنا ہے کہ جو آدمی گناہ کرتا ہے اور گناہ پر ندامت ہونے کی وجہ سے، اٹھ کر وضو کرتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور پروردگار سے اپنے گناہ کی مغفرت چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا گناہ معاف فرما دیتا ہے پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی۔ اور ایسے لوگ کہ جب کوئی ایسا کام کر گذرتے ہیں جس میں زیادتی ہو یا اپنی ذات پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو (یعنی اس کے عذاب کو) یاد کرلیتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے لگتے ہیں اور اس روایت کو جامع ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے مگر ابن ماجہ نے آیت ذکر نہیں کی۔

تشریح
صدق ابوبکر (حضرت ابوبکر ؓ نے بالکل سچ فرمایا) یہ جملہ معترضہ کے طور پر ہے جس کے ذریعے حضرت علی المرتضیٰ نے حضرت ابوبکر کی بزرگی ان کی عظمت اور ان کے انتہائی سچے ہونے کو ظاہر فرمایا ہے جن کی سچائی اور صداقت اس پایہ کی تھی کہ خود رسول اللہ ﷺ نے انہیں صدیق کے لقب سے سرفراز فرمایا۔ حضرت علی المرتضیٰ کے بارے میں منقول ہے کہ ان کی عادت تھی کہ وہ کسی بھی راوی کی نقل کردہ حدیث کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے تھے جب تک کہ راوی سے وہ قسم نہ کھلوا لیتے تھے چناچہ جب راوی ان سے کہتا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث اسی طرح سنی ہے تو آپ اسے قبول فرماتے لیکن جب کوئی حدیث حضرت ابوبکر ؓ سے سنتے تو بغیر قسم کے قبول کرلیتے تھے۔ فیتطھر کا مطلب تو یہی ہے کہ گناہ کرنے والا وضو کر کے نماز پڑھے لیکن افضل غسل کرنا ہے نہ صرف یہ بلکہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرنا سب سے زیادہ افضل ہے۔ یصلی کا مطلب یہ ہے کہ دو رکعت نماز پڑھے جس میں سے ایک رکعت میں سورت فاتحہ کے ساتھ قل یا ایھا الکافرون پڑھی جائے۔ اور دوسری رکعت میں قل ہو اللہ کی قرأت کی جائے اس کو نماز تو بہ کہا جاتا ہے۔ حدیث کے الفاظ ثم یستغفر اللہ (پھر پروردگار کی بارگاہ میں توبہ مانگتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اس گناہ کو چھوڑ دیتا ہے بلکہ آئندہ کبھی گناہ میں مبتلا نہ ہونے کا پختہ عزم کرتا ہے اور اس عزم پر ثابت قدم رہتا ہے پھر یہ کہ اگر اس کے ذمے کسی کا کوئی حق ہوتا ہے تو اس کا تدارک کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشاد کے بعد بطور دلیل کے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یہی خداوند کریم بھی فرماتا ہے لِذُنُوْبِھِمْ کے بعد آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے۔ آیت ( وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ ١٣٥ اُولٰ ى ِكَ جَزَا ؤُھُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَجَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ ١٣٦) 3۔ ال عمران 135۔ 136) اور ہے کون؟ جو گناہوں کو بخشتا ہو اور یہ لوگ اپنے فعل (گناہ) پر اصرار نہیں کرتے اور وہ جانتے ہیں، ان لوگوں کی جزاء بخشش ہے۔ ان کے رب کی طرف سے اور ایسے باغ ہیں جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہونگی اور وہ ان میں ہمیشہ بستے رہیں گے اور (اچھے) کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے۔ اس آیت کا شان نزول بعض مفسرین کی روایت کے مطابق ایک مخصوص واقعہ ہے۔ ایک صحابی سے بتقاضائے ایک لغزش ہوگئی مگر وہ فورًا متنبہ ہوگئے جس سے وہ انتہائی نادم اور شرمندہ ہوئے ان کی ندامت و شرمندگی اور رب العزت کی بارگاہ میں اس لغزش سے ان کی صدق دل سے توبہ و استغفار کے پیش نظریہ آیت نازل فرمائی گئی۔ یہ دو آیتیں ہیں پہلی آیت میں لفظ والذین مبتداء ہے، دوسری آیت میں اولئک خبر ہے یعنی پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے ثواب و عذاب پر یقین رکھنے والے جب بتقاضائے بشریت کسی خطا و لغزش اور گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو ایمان و یقین سے بھر پور ان کا ضمیر انہیں فورًا متنبہ کرتا ہے وہ ایسے موقع پر اپنے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ہیں اس کی عبادت و بندگی کر کے اس سے اپنی لغزش کی معافی چاہتے ہیں اپنی خطا و گناہ پر شرمندگی و ندامت کا اظہار کر کے توبہ مانگتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ کسی گناہ پر ڈھٹائی کے ساتھ عمل پیرا نہیں رہتے۔ بلکہ آئندہ کے لئے کسی گناہ میں مبتلا نہ ہونے کا عزم کرتے ہیں اور اپنے پختہ عزم پر قائم رہتے ہیں۔ دوسری آیت میں ایسے لوگوں کی جزاء بیان کی جا رہی ہے کہ خداوند کریم اپنی رحمت کے صدقے ان لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ان کی غلطی سے درگزر کرتا ہے اور چونکہ یہ گناہوں سے صدق دل کے ساتھ معافی کے خواستگار ہوتے ہیں اس لئے ان کی بخشش فرماتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جنت اور جنت کی نعمتوں کے حقدار ہوتے ہیں۔
Top