مشکوٰۃ المصابیح - تراویح کا بیان - حدیث نمبر 1285
وَعَنْ زَےْدِ بْنِ اَرْقَمَص اَنَّہُ رَاٰی قَوْمًا ےُصَلُّوْنَ مِنَ الضُّحٰی فَقَالَ لَقَدْ عَلِمُوْااَنَّ الصَّلٰوۃَ فِیْ غَےْرِ ھٰذِہِ السَّاعَۃِ اَفْضَلُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ صَلٰوۃُ الْاَوَّابِےْنَ حِےْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ۔(صحیح مسلم)
نماز چاشت کا بہتر وقت
اور حضرت زید ابن ارقم کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک جماعت کو ضحی کے وقت (چاشت کی) نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ لوگ (احادیث کے ذریعے) جانتے ہیں کہ اس وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں نماز پڑھنا بہتر ہے (یعنی اس وقت زیادہ۔ ثواب ملتا ہے چنانچہ) سرتاج دو عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ جل شانہ کی جانب کامل توجہ رکھنے والوں کی نماز کا وقت وہ ہے۔ جب کہ اونٹوں کے بچے (یعنی ان کے پیر) گرم ہونے لگیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جب حضرت زید ؓ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے نماز چاشت کے مختار اور بہتر وقت کا انتظار نہیں کیا بلکہ اول وقت ہی نماز پڑھنے لگے تو انہیں بہت تعجب ہوا اور ان کے بارے میں فرمایا کہ اگرچہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی حدیث سن چکے ہیں اور انہیں علم ہے کہ یہ وقت نماز چاشت کا افضل وقت نہیں ہے بلکہ افضل اور بہتر وقت تو اس کے بعد شروع ہوگا اس کے باوجود یہ لوگ اس وقت نماز نہ معلوم کیوں پڑھ رہے ہیں؟ چناچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں بتایا کہ نماز چاشت کا بہتر اور افضل وقت وہ ہے جب کہ اونٹوں کے بچے گرم ہونے لگیں یعنی آفتاب بلند ہوجائے اور دھوپ اتنی پھیل جائے کہ گرمی کی شدت سے زمین گرم ہوجائے جس کی وجہ سے اونٹوں کے پیر جلنے لگیں اور دھوپ و گرمی میں اتنی دھوپ و گرمی میں اتنی شدت تقریبا ڈیڑھ پہر گذرنے پر آتی ہے۔ بہر حال اس حدیث سے صریح طور پر معلوم ہوگیا کہ نماز چاشت کا وقت یہ ہے کہ آفتاب خوب بلند ہوجائے، دھوپ اچھی طرح پھیل جائے اور ایک پہر ختم ہونے کے بعد دوسرا پہر شروع ہوجائے اس طرح اس نماز کا آخری وقت دوپہر یعنی زوال سے پہلے پہلے تک ہوگا۔ نماز چاشت کا مذکورہ وقت افضل اس لئے ہے کہ اس وقت عام طور پر طبیعت میں کسل و سستی پیدا ہوجاتی ہے اور جی یہی چاہتا ہے کہ آرام کیا جائے لہٰذا ایسے وقت میں آرام اور طبیعت کے تقاضے کو پس پشت ڈال کر وہی بند گان اللہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جو بارگاہ رب العزت کی طرف کامل رجوع اور توجہ رکھتے ہیں۔
Top