تراویح کی رکعتوں کی تعداد
اور حضرت اعرج (تابعی) فرماتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان (کے روزوں) میں کفار پر لعنت بھیجا کرتے تھے اور (اس زمانے میں) قاری (یعنی نماز تراویح کا امام) سورت بقرہ کو آٹھ رکعتوں میں پڑھا کرتا تھا اور اگر (کبھی) سورت بقرہ کو بارہ رکعتوں میں پڑھتا تو لوگ سمجھتے کہ نماز ہلکی پڑھی گئی ہے۔ (مالک)
تشریح
گو حدیث سے بصراحت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کفار پر لعنت پورے رمضان کے وتروں کے ساتھ مخصوص تھا۔ اس طرح تمام حدیثوں میں تطبیق پیدا ہوجائے گی چناچہ اس مفہوم کو اختیار کرنے کے بعد یہ حدیث حضرت عمر کی اس حدیث کے منافی نہیں ہوگی جس سے ثابت ہوچکا ہے کہ جب رمضان کا نصف حصہ گذ رجائے تو وتروں میں کفار پر لعنت بھیجنا سنت ہے۔ کفار پر لعنت بھیجنے کا سبب یہ تھا کہ جب کفار نے اس بابرکت اور مقدس و باعظمت مہینے کی تعظیم نہ کی جس کی عظمت و بزرگی خودباری تعالیٰ عزاسمہ نے بیان فرمائی ہے اور سر چشمہ ہدایت و فیضان کلام اللہ سے ذرہ برابر بھی ہدایت حاصل نہیں کی جو اسی باعظمت مہینے میں نازل ہوا ہے تو وہ اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان پر لعنت بھیجی جائے۔ نماز تراویح کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں ابھی پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجئے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز تراویح کی رکعتوں کی کوئی تعداد متعین نہیں فرمائی تھی بلکہ اس سلسلے میں آپ ﷺ کا عمل مختلف رہا ہے۔ آپ ﷺ سے آٹھ رکعتیں بھی مسنون ہیں اور یہ بھی آتا ہے کہ آپ ﷺ نے گیارہ رکعتیں پڑھی ہیں۔ اسی طرح تیرہ اور بیس رکعتیں بھی آپ ﷺ سے پڑھنی منقول ہیں مگر حضرت عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں تراویح کی بیس رکعتیں متعین فرما دیں اس کے بعد تمام صحابہ کا اسی پر عمل رہا حضرت عثمان اور حضرت عملی ؓ نے بھی اپنے اپنے زمانہ خلافت میں اس کا انتظام رکھا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت اپنے اوپر لازم قرار دو، اسے اپنے دانتوں سے پکڑو لہٰذا اگر کوئی آدمی رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کی موجودگی میں تراویح کی بیس رکعتوں کا اس لئے قائل نہیں ہوتا کہ ان کا ثبوت قطعی رسول اللہ ﷺ سے نہیں ہے تو اس کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ کہ وہ منشاء نبوت اور حقیقت سنت کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے۔